• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
’’جس سلطنت کی مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو؟‘‘ خاندان بنو امیہ کے عرب مسلمان سات سو برس تک یورپ کے اہم ملک اسپین پر حکمرانی کرتے رہے۔ یہ سلطنت انہوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر تلوار کے زور پر حاصل کی اور حسن تدبیر سے سات صدیوں تک حکمران رہے۔ ان بہادر اور جفاکش عربوں کے کم کوش اور بزدل فرزند نے جو عظیم غرناطہ کا آخری حکمران تھا، اپنی جان سلامت لے جانے کے عوض صدیو ں کی حکمرانی، آباء کا وقار اور اپنے ہتھیار2جنوری 1492ء کے دن ملکہ ازابیلیا (Isabelia) اور فرڈدیننڈ (Ferdinand) کے قدموں میں ڈال دیئے۔ جلاوطن ہونے کیلئے جب اپنے خاندان کے ہمراہ غرناطہ کے ساحل سے افریقہ کے سمندروں کی طرف روانہ ہوا تو ضبط کے بندھن ٹوٹ گئے او روہ پھوٹ کر رویا۔ تب اس کی والدہ نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’جس سلطنت کی تم مردوں کی طرح حفاظت نہیں کر سکے، اس پر عورتوں کی طرح آنسو کیوں بہاتے ہو؟‘‘ آج یہ فقرہ بزدل حکمرانوں پر ضرب المثل طنز بن چکا ہے۔ کاش ہمارے حکمرانوں کی بھی کوئی ایسی ماں ہوتی جو اس طرح کے بھرپو ر طنز کے ساتھ ان کی غیرت جگانے کی کوشش تو کرتی؟
ہر خود مختار اور آزاد قوم نے اپنے اقتدار اعلیٰ کی سرخ لکیر، ملکی سرحد پر رکھی ہوتی ہے، جب اس کی خلاف ورزی ہو تو سیکورٹی ادارے اس کا فوری جواب دیتے ہیں، جس طرح چند ماہ پہلے ترکی نے اپنی سرحد کی خلاف ورزی کرنے والے روسی طیارے کو مار گرایا، حالانکہ وہ طیارہ شامی سرحد کی طرف سے صرف ایک میل اندر آیا تھا، جہاں ترکی کی کوئی حساس تنصیبات ہیں، نہ ہی ترکی کا روس کے خلاف اعلان جنگ تھا۔ اس کے بعد روس نے ترکی کے خلاف بعض اقدامات کئے جس کی وجہ سے کئی معاہدے اور منصوبے کھٹائی میں پڑ گئے۔ لیکن ترکوں نے اپنے اقتدار اعلیٰ کے خلاف کوئی سمجھوتہ کیا نہ کمزوری دکھائی۔ پاکستان کے حکمران پہلے مشرف اور اب نام نہاد جمہوری بادشاہتیں اپنی سرخ لکیر کو لئے جس رفتار سے اندرون ملک روانہ ہیں، لگتا ہے کہ عنقریب یہ لکیر اسلام آباد کے ’’ڈی چوک‘‘ تک سکڑ آئے گی۔ اس تازہ ترین واقعہ نے ہمارے لئے فکرمندی کی نئی وجہیں پیدا کر دی ہیں۔
کل بھوشن یادیو جو انڈین نیوی کا حاضر سروس افسر ہے، جو عارضی طور پر ’’را‘‘ کے ساتھ منسلک ہو کر ایک فرضی نام سے پاسپورٹ اور سفری دستاویزات کے ساتھ ایران میں تعینات ہوا، اس کا پاسپورٹ اور بیرون ملک سفر کے کاغذات جعلی نہیں تھے، ا س کی شناخت فرضی تھی، اس لئے ’’یادیو‘‘ کو ایران کا ویزا حاصل کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی کہ اس کے سفری کاغذات کی گارنٹی بھارتی حکومت کی تھی۔ بالکل اسی طرح ملا اختر منصور افغانستان کا شہری ہونے کے باوجود ’’ولی محمد‘‘ کے فرضی نام سے پاکستان کے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ پر بیرون ملک سفر کر رہا تھا، وہ دبئی گیا، قطر یا ایران تب وہ پاکستان کی مجاز اتھارٹی کی طرف سے جاری کئے گئے پاسپورٹ اور دستاویزات پر سفر کر رہا تھا، نہ کہ طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی حیثیت سے۔ انہی دستاویزات کے مطابق حاصل شناخت کے ساتھ اس نے پاکستان میں بھی جائیداد خریدی اور اس جائیداد کو کرایہ پر دے کر ضروریات زندگی بھی حاصل کرتا رہا۔ایران کے مخالف بلکہ دشمن کا، دوست پاکستان کے پاسپورٹ پر ایران کا سفر اختیار کرنا ہمارے لئے شرمندگی اور ایران کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح کل بھوشن یادیو کا ایران میں بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازش اور جاسوسی کرنا ایران کیلئے سبکی اور پاکستان کیلئے تشویش کا باعث ہے۔ یہ ایران کا حق ہے کہ وہ ملا اختر منصور کے سفر ایران پر پاکستان سے احتجاج کرتا یا کم از کم ہماری وزارت خارجہ اور داخلہ کے سامنے اپنی تشویش کا اظہار کرتا۔ ایران کا یہ کہنا بالکل درست اور برحق ہے کہ ملا اختر منصور ہمارا مخالف ہے اور اس نے کبھی ایران کا دورہ نہیں کیا۔ اگر ’’ولی محمد‘‘ ایران گیا یا جاتارہا ہے تو اسے پاکستانی شہری خیال کرتے ہوئے ویزہ دیا گیا جبکہ اس کے پاس جدید ترین مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ تھا، اب تک کی تفتیش کے مطابق یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ ’’ولی محمد‘‘ کی شناخت کی تصدیق پاکستان کے ذمہ دار سرکاری اہلکاروں نے کی، اسی تصدیق پر ’’نادرا‘‘ کے غیرذمہ دار اور کرپٹ اہلکاروںنے شناختی کارڈ بنایا، اسی کارڈ کی بنیاد پر اس نے مجاز اتھارٹی سے پاسپورٹ حاصل کیا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ کے بعض دانشوروں اور افغانستان کے سابق وزیراعظم اور مجاہدین کے سابق کمانڈر گلبدین حکمت یار کی یہ حکمت ہرگز قابل اعتبار نہیں ہو سکتی کہ ’’ملا اختر منصور ایرانی خفیہ ایجنسی کی نشاندہی پر مارا گیا‘‘ فرضی نام مگر اصل پاکستانی دستاویزات کے ساتھ ایران جانیوالے پاکستانی پر انہیں کوئی شک نہیں رہا ہوگا۔ اگر انہیں اس بات کی بھنک مل جاتی تو یقیناً وہ اسے گرفتار کر لیتے اور کسی کو بھی ان کی گرفتاری کی بھنک نہ ملتی، تاوقتیکہ وہ خود اس کا اعلان کرتے۔ بہت سے طالبان اور القاعدہ لیڈرز گرفتار ہو کر ایران کی تحویل میں رہ چکے ہیں، ایرانی انہیں گرفتار کر کے زیادہ فائدہ اٹھا سکتے تھے ، بجائے اس کے کہ وہ اس کی امریکہ کیلئے جاسوسی کرتے تاکہ وہ اسے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں نشانہ بنائے۔ یہ مفروضہ ’’دور کی کوڑی لانے ‘‘اور ’’بگلے کے سر پر موم رکھ کر پکڑنے ‘‘کے مترادف ہے۔
یہ مفروضہ ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا کہ ایران کی خفیہ ایجنسی اور امریکہ کی سی آئی اے پلک جھپکنے میں شیر وشکر ہو گئے ہیں کہ ایک دوسرے کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کریں اور اس حد تک کہ طالبان امیر کی جاسوسی کر کے امریکہ کیلئے مخبری کریں۔ جو لوگ اس طرح کی باتیں کرتے ہیں وہ ایران کو جانتے ، ان کی نفسیات سمجھتے اور نہ ہی ان کی تاریخ اور روایات سے آگاہ ہیں۔ ایران اور امریکہ کے درمیان تنائو کی پہلی سی کیفیت نہیں رہی، امریکہ کے ساتھ ان کے تعلقات بحالی کے عمل سے گزر رہے ہیں، امریکہ نے کچھ پابندیاں ہٹا لی ہیں، لیکن پوری طرح ایران سے پابندیاں ہٹی ہیں نہ دونوں ملکوں کے تعلقات معمول پر آئے ہیں بلکہ حالیہ دنوں میں کانگریس کے بعض اقدامات اور صدارتی امیدوار ’’ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ کے بیانات نے کسی حد تک تنائو میں اضافہ کر دیا ہے۔ ان حالات اور پس منظر کے ساتھ یہ خیال کرنا کہ ایران اور امریکہ ایک دوسرے کی خفیہ ایجنسیوں کے نیٹ ورک کے ساتھ جڑ گئے، پرلے درجے کی حماقت اور سادہ لوحی قرار دی جا سکتی ہے۔ پاکستانی میڈیا کے غیرمحتاط اور غیرذمہ دارانہ رویے کی وجہ سے ایرانی سفیر کو چند دنوں میں دوسری مرتبہ پریس کے سامنے پاکستان کے ساتھ اپنے دوستانہ تعلقات پر وضاحت کرنا پڑی۔
طالبان امیر کی تبدیلی خواہ وہ کسی طرح بھی عمل میںآئے، افغانستان کی خانہ جنگی میں بہت اہم مانی جائے گی، کیونکہ ان کے اندر مشاورت اور امیر کے چنائو کا قابل عمل طریقہ کار موجود ہے بلکہ ملا اختر منصور کے بعد بننے والا امیر زیادہ باوقار اور لائق احترام خیال کیا جاتا ہے۔
ملاعمر کے بعد طالبان صفوں میں جو کچھ بے چینی پیدا ہوئی تھی وہ ملا ہیبت اللہ اخوانزادہ کی امارت میں ختم ہو جائے گی۔ جو دھڑے اختلافات کی وجہ سے دور چلے گئے تھے ان کے واپس لوٹ آنے کا امکان ہے بلکہ ہیبت اللہ کے امیر بننے سے افغانستان میں ’’داعش‘‘ کی پیش قدمی بھی رک جائے گی۔
تازہ ترین