• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آخر کار19جون کو وہ مرحلہ بھی طے ہوگیا، جس کا قوم کو ایک عرصے سے انتظار تھا۔ ایف اے ٹی ایف نے شرائط پوری ہونے پر پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنے کا مرحلہ شروع کردیا۔شاید یہ خوشی اِتنی زیادہ تھی کہ ہر سیاسی جماعت اور ادارہ اس کا کریڈٹ لینے کو بے قرار نظر آیا۔ فیٹف گزشتہ چار سال سے خوف ناک تلوار کی صورت مُلک و قوم کے سر پر مسلّط تھا۔ اس کے سبب سرمایہ کاری اور تجارت کی راہیں مسدود ہوگئی تھیں اور اس نے دنیا کا پاکستان پر اعتماد متزلزل کر رکھا تھا۔ فیٹف کی زد میں آنے کا ایک سبب ہماری کو تاہیاں بھی تھیں، جن کا چاہے کچھ بھی جواز پیش کریں، تو دوسری طرف بین الاقوامی سیاست اور سفارت بھی اس معاملے میں ملوّث ہوگئی۔

ہمارے ارد گرد کے ماحول، خاص طورپر افغانستان کی صُورتِ حال کا بھی اس میں اہم کردار رہا۔افغان طالبان کی مسلسل جنگ نے ہماری مشکلات میں اضافہ کیا اور دنیا ہر معاملے میں ہمیں اسی مخصوص عینک سے دیکھتی تھی۔ ہم اس پر فخر بھی کرتے رہے کہ افغان معاملے میں سہولت کاری کر رہے ہیں لیکن اس کی قیمت اپنے مُلک میں امن و امان اور معیشت کی کم زوری کی صُورت میں آج تک ادا کر رہے ہیں۔

پاکستان کو فیٹف کے ایک نہیں، دو پلانز پر عمل کرنا پڑا اور ساتھ ہی کئی محاذوں پر سفارتی جنگ بھی لڑنا پڑی۔اس امر میں کوئی شک نہیں کہ اگر اِس معاملے میں فوجی اور سِول اداروں میں مکمل ہم آہنگی نہ ہوتی، تو شاید یہ معاملہ مزید طول پکڑتا۔ سیاسی جماعتوں کا کردار بھی قابلِ تحسین ہے۔حکومت تو اِس ایشو پر کام کر ہی رہی تھی، اپوزیشن نے بھی رکاوٹ ڈالنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ ہر مرحلے پر تعاون کیا۔اصل خوشی اِس امر پر ہے کہ اس مرحلے پر پہنچنے کے بعد وہ ساری پیچیدگیاں اور رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی، جو مُلکی ترقّی اور معاشی گروتھ کے لیے مسئلہ بنتی جارہی ہیں۔

سیاسی قیادت کریڈٹ کی جنگ میں اُلجھنے کی بجائے معاملات کے حل پر توجّہ دے 

فیٹف کی گرے لسٹ میں رہنے کی وجہ سے کوئی بین الاقوامی مالیاتی ادارہ، ملٹی نیشنل کمپنی یا اہم مُلک پاکستان میں سرمایہ کاری پر رضا مند نہیں تھا۔ فیٹف سے اچھی خبر آنے کے بعد آئی ایم ایف کا رویّہ نرم ہو گیا ۔اس کے ساتھ ہی دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں کی طرف سے بھی قرضوں میں پیش رفت ہوئی ہے۔ توانائی ایک اہم مسئلہ ہے اور اِس ضمن میں دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کا بہت ذکر ہوتا ہے، لیکن فیٹف لسٹ میں موجودگی کے سبب ڈیم کے لیے بیرونی سرمایہ کاری کا حصول ممکن نہیں تھا، جس کے بغیر اس کی تعمیر خواب ہی رہتی۔

اب یہ بڑی رکاوٹ دُور ہونے کو ہے، لیکن جیسا کہ وزیرِ مملکت برائے خارجہ امور، حنا ربانی کھر نے کہا کہ’’ چاہے جو بھی اس کا کریڈٹ لے لے، لیکن اکتوبر تک جو معاملات طے ہونے ہیں، اُنہیں خوش اسلوبی سے پورا کر لینے دیا جائے، قبل از وقت جشن منانے سے پرہیز بہتر ہے۔‘‘ اکتوبر میں فیٹف کا جائزہ وفد اسلام آباد کا دورہ کرے گا اور یہ جانچے گا کہ جن شرائط کو کام یابی سے مکمل کیا گیا ہے، وہ کس طرح مستقبل میں بھی لاگو رہیں گی۔

دوسرے الفاظ میں یہ لانگ ٹرم معاملہ ہے اور کسی بھی حکومت کے لیے ممکن نہ ہوگا کہ وہ اس پر سستی سے کام لے۔ ویسے بھی ان شرائط کی پابندی آج کی دنیا میں خود ہمارے لیے بھی سود مند ہے۔ اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ آئی ایم ایف کی شق نمبر چھے بھی کہ فیٹف کے معاملات سلجھائے جائیں، پوری ہوگئی اور اس کے پروگرام کی بحالی ممکن ہوسکی، جو مُلک کے لیے اہم ترین تھی۔

اب ایک نظر ایف اے ٹی ایف کی اہمیت پر بھی ڈال لیں۔یہ ادارہ1989 ء میں قائم کیا گیا۔یاد رہے، اُس وقت پہلی افغان وار ختم ہوئی تھی اور سوویت یونین کئی حصّوں میں تقسیم ہو رہی تھی۔ افغانستان، وسط ایشیاءکی مسلم ریاستیں آزاد ہوئیں، تو مشرقی یورپ میں شامل یوکرین اور دوسری ریاستیں بھی سوویت روس کے تسلّط سے نکل گئیں۔ کمیونزم کا اپنی اصل ہیت میں خاتمہ ہوا۔ امریکا اور نیٹو، مغربی ایشیاء میں کام یاب ہوکر واپس جاچکے تھے۔ یاد رہے، پاکستان نے افغان وار میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔ 

تکلیف دہ صُورتِ حال یہ تھی کہ افغان جنگ میں بڑے پیمانے پر بیرونی فوجی مداخلت ہوئی اور مشرقِ وسطیٰ تک کے فوجی گروہ جنگ کا حصّہ بنے۔یہ جَلد بازی میں قائم کیے گئے گروپس تھے اور کسی کی بنیاد سرمایہ تھا، تو کوئی مذہب کا نام استعمال کرتا رہا، لیکن ان کا اہم مقصد اپنی فوجی طاقت میں اضافہ اور اپنے حصّے کی اہمیت تھی۔ افغانستان اور اردگرد کے علاقوں بلکہ مشرقِ وسطیٰ تک میں ایسی نجی فورسز وجود میں آئیں، جن کے پاس اسلحہ تھا اور اُنہیں سرمایہ بھی فراہم کیا گیا تاکہ وہ سوویت یونین اور کمیونزم کے خلاف ایشیاء میں فوجی مزاحمت کریں۔ اُنہیں کئی ممالک نے مدد فراہم کی،جن میں ظاہر ہے مغربی ممالک سرِ فہرست تھے۔

علاقے کا سب سے بڑا کھلاڑی ہونے کے باوجود اس معاملے میں چین کا کردار خاصا محدود تھا اور وہ اس دوران اپنے گھر کو درست کر رہا تھا، اُس کی تمام تر توجّہ معیشت کی بہتری پر تھی۔ مشرقِ وسطیٰ اور مشرقی یورپ میں ان ملیشیاء گروپس نے جو رویّہ اپنایا، وہ دہشت گردی کے زمرے میں شمار ہوا۔ اسے نئی گوریلا جنگ کہہ کر پکارا گیا، لیکن اس کا ایندھن بڑی تعداد میں بے گناہ شہری اور مُلکی املاک بنیں، جب کہ انہیں سرمایہ امیر اور طاقت ور ممالک کی طرف سے ملا۔پاکستان میں کلاشن کوف اور ہیروئن کلچر عام ہوا۔شہر اور ادارے خود کش حملوں، بم دھماکوں کی زد میں آئے۔

اُسی زمانے میں سازشی نظریات نے زور پکڑنا شروع کیا، خاص طور پر یہ بات عام کی گئی کہ ساری دنیا مسلمانوں کو تباہ کرنے کے درپے ہے اور اس کے خلاف اب جہاد فرض ہوچکا ہے۔یہ تاثر بھی عام ہوا کہ یہ جہاد مسلم حکم رانوں کے بس کا نہیں کیوں کہ وہ بڑی قوّتوں کے غلام ہیں۔ افغانستان اور پھر بوسنیا کے مسلمانوں پر جو مظالم ہوئے، اُس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔اُس وقت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، جب ان مسلّح تنظیموں نے خود کو ہر قانون اور ضابطے سے آزاد سمجھنا شروع کیا۔

یہ جن بوتل میں واپس جانے سے انکاری ہوگیا۔بڑی طاقتیں تشویش میں مبتلا ہوئیں،جب کہ چھوٹے اور کم زور مُمالک ان تنظیموں کی وجہ سے شدید دبائو میں آگئے۔ اِس لیے ان تنظیموں کو نکیل ڈالنا ضروری سمجھا گیا۔ ان گروپس میں القاعدہ، صومالی باغی، طالبان اور داعش وغیرہ شامل تھے۔ مشرقِ وسطیٰ میں ایران کی تیار کردہ ملیشیاؤں کا بھی کردار اہم رہا، جنہوں نے عراق، شام اور لبنان کی خانہ جنگیوں میں فعال کردار ادا کیا۔ ظاہر ہے کہ بڑی طاقتیں کب تک برداشت کرسکتی تھیں کہ یہ تنظیمیں شتر بے مہار کی طرح ہر طرف دندناتی پھریں۔

پھر یہ آگ اُن کے اپنے شہروں تک بھی پہنچ چکی تھی۔نائن الیون، پیرس دھماکے،برطانیہ کے سب وے، اسپین اور آسٹریلیا تک میں مسلّح کارروائیاں ان تنظیموں کے اثر و نفوذ کی مثالیں بنیں۔اس کے علاوہ، پاکستان سمیت بہت سے مسلم ممالک اس طرح کے حملوں کی زد میں رہے۔ ان ممالک میں ہونے والی مسلّح کارروائیوں میں ان تنظیموں کا کردار رہا، اِسی لیے انھیں محدود کرنے کے لیے جہاں فوجی اقدامات ناگزیر ہوئے، وہیں اُس سرمائے پر قابو پانا بھی اہم تھا، جس کے بل بوتے پر یہ نان اسٹیٹ مسلّح تنظیمیں پَل رہی تھیں۔جب ایف اے ٹی ایف بنا، تو اُس کے35 رکن مُلک تھے۔نائن الیون سانحہ ہوا،تو ٹیرر فنائنسنگ اور منی لانڈرنگ جیسے معاملات انتہائی اہمیت اختیار کرگئے۔

ظاہر ہے کہ مسلّح گروپس کے قائم رہنے کی صلاحیت سرمائے کی مرونِ منّت تھی۔ دراصل، ایف اے ٹی ایف کے دو پہلو ہیں۔ایک کا تعلق آپریشنل معاملات سے ہے، جس میں منی لانڈرنگ، ٹیرر فنائنسنگ، ان سے متعلق قوانین کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد شامل ہے۔ دوسرا پہلو سیاسی ہے اور اس کی بھی ایک قیمت ہے جو بہرحال چُکانی پڑتی ہے کیوں کہ ہم اسی دنیا میں رہتے ہیں اور اگر ساری دنیا کو دشمن بنانے کا اعلان کریں، تو اس کی قیمت بلیک لسٹ اور گرے لسٹ کے صُورت ادا کرنی پڑتی ہے، جو ہم نے گزشتہ برسوں میں ادا کی۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ پاکستان دوسری مرتبہ گرے لسٹ میں2018 ء میں نگران حکومت کے دَور میں آیا اور پھر اگلے چار سال تک اسی میں رہا۔

یہ کوئی اچھی روایت نہیں کہ سیاسی جماعتوں میں ہر معاملے میں کریڈٹ لینے کی دوڑ لگ جائے۔قومی پالیسیز خاص طور پر جن کا تعلق ہمارے معاشی اور خارجہ امور کے امتزاج سے ہو، ان پر سیاست اور پوائنٹ اسکورنگ سمجھ سے بالا تر ہے۔ اس حوالے سے ٹویٹس کا مقابلہ غیر ذمّے داری ہے یا پھر قومی اور بین الاقوامی معاملات سے لاعلمی کی علامت۔ جن ٹویٹس میں موجودہ حکومت کو فیٹف سے لاتعلق ثابت کرنے اور سارا کریڈٹ سابقہ حکومت کو دینے کی کوشش کی گئی، وہ بھی مضحکہ خیز ہیں۔ بہر حال، حوصلہ افزا بات یہ ہےکہ شرائط پوری ہوچکی ہیں، جس کا عالمی ادارے کی طرف سے باضابطہ اعتراف کیا گیا اور اب گرے لسٹ سے نکلنے کے طریقۂ کار پر کام شروع ہوچُکا ہے۔

اس مرحلے پر بہتر یہی ہوگا کہ سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش سے کوئی منفی تاثر سامنے نہ آئے،اُنھیں کچھ عرصے کے لیے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر لینی چاہیے۔ پاک فوج کے ترجمان، میجر جنرل بابر افتخار نے اِس ضمن میں بتایا کہ ایف اے ٹی ایف کو ملٹری اور سِول سطح پر انتہائی سنجیدگی سے لیا گیا۔ جی ایچ کیو میں 30 اداروں پر مشتمل ایک سیل بنایا گیا، جس نے دن رات کام کرکے اس مصیبت سے نجات دلائی۔اس سے دو بڑے مقاصد حاصل کیے گئے۔

ایک منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنائنسنگ پر مؤثر لائحۂ عمل کی تیاری، قانون سازی اور دوسرا ان پر عمل درآمد یقینی بنانا۔ یاد رہے کہ قوانین کی تو سال بھر پہلے بھی ایف اے ٹی ایف نے تعریف کی تھی، لیکن اس کا کہنا تھا کہ سزائوں کے معاملات تسلّی بخش نہیں ہیں۔ ستائیس نکات پورے ہونے کے باوجود گزشتہ سال کے آخر میں مزید چار نکات کا اضافہ کیا گیا۔ سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے تو فیٹف کے مارچ اجلاس ہی میں گرے لسٹ سے نکلنے کی نوید دے دی تھی، لیکن پھر آخری وقت میں اُنہیں بیان کی درستی کرنی پڑی اور بھارت کو فہرست میں رہنے کا سبب بتایا۔ 

ایسے معاملات میں جذباتی ہونا اور وہ بھی وزیرِ خارجہ کی سطح پر انتہائی غیر مناسب تھا۔اُنھوں نے پلواما واقعے کے بعد بھی او آئی سی کے یو اے ای میں ہونے والے اجلاس پر غیر مناسب بیان دیا تھا،جس کی وجہ سے کافی دنوں تک عرب امارات سے بدمزگی رہی اور دو ارب ڈالر کا قرضہ خطرے میں پڑ گیا۔ اسی طرح سعودی عرب کے معاملے میں بھی اُس وقت غیرمتحاط بیان دیے، جب ملائیشیا میں ایک کانفرنس ہوئی تھی۔ اس پر سعودی عرب نے اپنے دو ارب ڈالر واپس لینے کی دھمکی تک دے دی تھی۔ بڑی مشکل سے معاملات سلجھے اور حکومت نے سُکھ کا سانس لیا۔ گزارش ہے کہ اِتنی گرد اُڑانے کی ضرورت ہی کیا ہے، جب اس کے بیٹھنے کا طویل اور تکلیف دہ انتظار کرنا پڑے۔

ایف اے ٹی ایف کے35 ارکان میں بھارت بھی شامل ہے، جب کہ پاکستان اس ادارے کا حصّہ نہیں ہے،اسی لیے اسے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔پاکستان کی مشکلات کا ایک سبب ایشیا پیسیفک گروپ کی مانیٹرنگ بھی ہے، جو فیٹف میں بہت فعال ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چُھپی بات نہیں کہ بھارت طویل عرصے سے پاکستان کو دہشت گردی سے جُڑے معاملات پر موردِ الزام ٹھہراتا ہے۔ وہ اس کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے نہیں دیتا۔ پاکستان اس الزام کو نہ صرف مسترد کرتا ہے بلکہ بھارت پر جوابی الزام لگاتا ہے، اس سلسلے میں بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں اور کلبھوشن کی جاسوسی کے مضبوط شواہد پیش کرتا ہے۔

تاہم یہ بھی ذہن میں رہے کہ بھارت کے امریکا، چین، یورپ اور عرب دنیا سے بہت اچھے تعلقات ہیں۔ اس کی اقتصادیات بہت بہتر ہے اور وہ دنیا کے لیے اہم ہے۔ ایک طرف وہ بائو فورم اور برکس بینک میں چین کے ساتھ ہے، تو دوسری طرف کواڈ فورم میں امریکا کا حلیف ہے، جب کہ روس سے بھی اس کے فوجی معاہدے ہیں۔ ہمیں غور کرنا ہوگا کہ ہم نے گزشتہ برسوں میں کیا کیا؟امریکا کے خلاف تلخ بیانات کا سلسلہ اور محاذ آرائی جاری رہی۔ عمران خان کا بیانیہ واشنگٹن، وہاں کے عوام اور میڈیا میں کس طرح دیکھا جارہا ہے، اسے سمجھنے کے بقراط ہونا ضروری نہیں۔

پھر یورپ میں گزشتہ سال ہمارے فرانس کے ساتھ تعلقات پیچیدگیوں کا شکار رہے۔ عرب ممالک کا حال اوپر بتا چُکے ہیں۔ بھارت تو ہمارا دشمن ہے ہی، اب ایسی صُورت میں ایف اے ٹی ایف میں کیا ہوسکتا تھا۔ موجودہ حکومت نے اس ڈیمیج کنٹرول کا انتظام کیا۔ وزیرِ خارجہ بلاول بھٹو نے پہلا دورہ امریکا کا کیا۔ پھر وہ یورپ گئے۔ جرمن وزیرِ خارجہ ایف اے ٹی ایف اجلاس سے ہفتے بھر پہلے پاکستان آئیں۔

یاد رہے، اِس مرتبہ اجلاس کی میزبانی جرمنی نے کی۔آرمی چیف نے چین کا اہم دورہ کیا۔ وزیرِ اعظم ترکیہ اور عرب دنیا کا دورہ کرچکے ہیں۔ بورس جانسن سے اُن کی بات چیت ہوچُکی تھی۔ تُرکیہ، جرمنی، چین، برطانیہ اور ملائیشیا ایف اے ٹی ایف کے رکن ہیں۔ اس ماحول میں ایف اے ٹی ایف نے تمام شرائط پوری ہونے کا اعلان کیا اور اکتوبر میں گرے لسٹ سے نکلنے کا واضح اشارہ دیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو سفارتی ڈیمیج ہوا تھا، وہ بڑی حد تک کنٹرول کرلیا گیا ہے اور دنیا پاکستان کو اپنے ساتھ لے کر چلنے کو تیار ہے۔