• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گمشدہ افراد کا مسئلہ کیسے حل ہو؟ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں بات چیت

اسلام آباد (انصار عباسی) گمشدہ افراد کا معاملہ ختم کرنے کیلئے کوئی قانونی طریقہ کار سامنے لانے کے حوالے سے حکومت سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بات چیت کر رہی ہے۔ اس معاملے کی وجہ سے نہ صرف ہیومن رائٹس کا سنگین ایشو سامنے آتا ہے بلکہ ہر حکومت اور ایجنسیوں کیلئے بھی ہزیمت کا باعث بنتا ہے۔

باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ گمشدہ افراد کا پیچیدہ اور حساس معاملہ سویلین حکومت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ دونوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ بحث و مباحثہ اس بات پر ہو رہا ہے کہ کوئی ایسا حل تلاش کیا جائے جس سے دہشت گردی کے خطرناک ملزمان اور ریاست مخالف عناصر کو کام کرنے کا موقع مل سکے اور نہ ایجنسیاں اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے کسی بے گناہ شخص کو پکڑیں۔ اس طرح کے مباحثے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے اجلاس میں بھی ہوئے ہیں جس میں سول ملٹری قیادت اور سیکورٹی ایجنسیوں کے نمائندے بھی ہوتے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کو ٹھکانے لگایا؟ روزنامہ جنگ کالمز


 سول حکومت اور سیکورٹی اسٹیبشلمنٹ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ کوئی قانونی حل سامنے لایا جائے جس میں سیکورٹی کا پہلو بھی متاثر نہ ہو لیکن ساتھ ہی اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ کوئی شخص لاپتہ نہ ہو۔ تاہم، مسئلے کا حل کیا ہوگا یہ معلوم نہیں۔ مختلف آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے جس میں ایجنسیوں کو اس بات کا پابند بنانا شامل ہے کہ وہ 48؍ گھنٹوں کے اندر ملزم کو عدالت میں پیش کر دیں اور اس پر پارلیمنٹ کی نگرانی ہونا چاہئے جو کسی بھی شخص کو حراست میں لیے جانے کی وجوہات اور جواز کی نگرانی کرے گی۔ اس بات کا اعتراف کیا جا تا ہے کہ غلط انٹیلی جنس رپورٹس کی بنیاد پر یا ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کی وجہ سے بے گناہ افراد کو اٹھا لیا جاتا ہے لیکن جن لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے ان کی اکثریت معاشرے کیلئے خطرناک ہوتی ہے اور اگر ان کو چھوڑ دیا جائے تو دہشت گردی اور تخریب کاری کے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ یہ واضح نہیں لوگوں کی گمشدگی کے واقعات کو ختم کرنے کیلئے کیا قانونی حل ضروری ہے۔ کیا ایجنسیوں کو گرفتاری کے اختیارات مل جائیں گے؟ ایجنسیوں کی جانب سے کی جانے والی گرفتاریوں کی نگرانی پارلیمنٹ کیسے کرے گی؟ یہ مشکل سوالات ہیں۔ ایک وفاقی وزیر کا کہنا ہے کہ کچھ معاملات ہیں جن پر مختلف اسٹیک ہولڈرز کی رائے مختلف ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وزیر نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ دہشت گردی اور ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث خطرناک ملزمان کو عام ملزمان کی طرح نہیں چھوڑا جا سکتا۔ سیکورٹی ایجنسیاں ان پر نظر رکھتی ہیں، ان سے متعلقہ معلومات حاصل کرتی ہیں لیکن اپنی حراست میں نہیں لیتیں۔ خدشہ ہے کہ اگر ایجنسیوں کو گرفتاری کے اختیارات دیدیے گئے تو سول سوسائٹی اور ہیومن رائٹس کے کارکن رد عمل دکھائیں گے۔ اگراور اگر خطرناک ملزمان کو چھوڑ دیا گیا تو دہشت گردی اور تخریب کاری بڑھے گی۔ یہ حکومت اور سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ کیلئے کشمکش کی صورتحال ہے۔ عدالتوں اور سول سوسائٹی کے دباؤ میں آ کر پی ٹی آئی حکومت نے جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کیلئے پارلیمنٹ میں ایک بل پیش کیا تھا جس میں جبری گمشدگی میں ملوث شخص کو 10 سال قید کی سزا دینے کی تجویز دی گئی تھی۔ تعزیراتِ پاکستان میں سیکشن 52-A کے بعد ایک نیا سیکشن 52-B (جبری گمشدگی) میں شامل کرنے کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ مجوزہ سیکشن میں کہا گیا تھا کہ "جبری گمشدگی کی اصطلاح کا تعلق ریاست کے کسی ایجنٹ کے ذریعے یا ریاست کی اجازت، حمایت یا رضامندی کے ساتھ کام کرنے والے فرد یا افراد کے گروہ کے ذریعے گرفتاری، حراست، اغوا یا آزادی سے محرومی کی دوسری شکل سے ہے، اس کے بعد آزادی کی محرومی کو تسلیم کرنے سے انکار یا لاپتہ شخص کی قسمت یا ٹھکانے کو چھپانے سے بھی ہے، کیونکہ ایسا کرکے اس شخص کو قانون کے تحفظ سے باہر رکھا جاتا ہے۔‘‘ اس بل پر قانون سازی نہیں ہو سکی اور اس وقت کے انسانی حقوق کے وزیر کے مطابق لاپتہ افراد کا بل غائب ہو گیا۔ مذکورہ بل سیکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کے مسئلے کو حل کرتا ہے جس میں کسی شخص کو کسی قانونی اختیار کے بغیر گرفتار کرکے نامعلوم مدت مدت کیلئے غائب کردیتے ہیں۔ تاہم، اس مسئلے پر بحث و مباحثہ ہو رہا ہے لیکن دوسرے پہلو کا جواب نہیں ہے کہ "خطرناک عناصر" سے نمٹنے کا طریقہ کیا ہوگا۔

اہم خبریں سے مزید