• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ…مریم فیصل
پاکستان میں آج کل ایک کیس کا بہت چرچا ہے جس میں ایک بچی یا تو اغوا ہوئی یا پھر اس نے خود پسند کی شادی کر لی ۔ یہ کوئی پہلا کیس نہیں ہے جس میں لڑکی اغوا ہوئی ہو یا پھر اس نے پسند کی شادی کرلی ، اس طرح کے کیسز کی تعداد اَن گنت ہے ، بچیاں اغوا بھی ہوتی رہی ہیں اور پسند کی شادیاں بھی کرتی رہی ہیں لیکن یہ وہ پہلا کیس ہے جس کے چرچے اور ذکر ہر زبان پر ہے ، سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس میں کیا انفرادیت ہے جو اس طرح کے دوسرے کیسز میں نہیں تھی، کیا اس میں پسند کی شادی نیا پوائنٹ آف انٹرسٹ ہے یا پھر دوسرے مسلک میں شادی کرنا انوکھی بات ہے، کیا کم عمری کی شادی وہاں پہلی بار ہوئی ہے یا پھر پاکستان میں پہلی بار کسی بچی کا اغوا ہوا ہے ، مطلب سمجھے تو کیا سمجھے کہ اس قصے میں نیا پن کیا ہے ، یہ سمجھ سے بالاتر ہو رہا ہے کہ اس میں ایسی کیا بات ہے کہ اس کیس کو اس قدر میڈیا کی توجہ مل رہی ہے ، کیایہ کوئی ہائی پروفائل کیس ہے کہ جس میں لڑکا یا لڑکی کسی بڑے باپ کی اولاد ہے کچھ بھی نہیں ہے جو اس کیس کو دوسرے اس ہی طرح کے کیسز سے منفرد بنا رہا ہے ، ہاں یہ میں ضرور کہوں گی کہ بچیوں کا اغوا اور کم عمری کی شادی یہ کوئی اچھی بات نہیں ہے اس پر جتنا احتجاج کیا جائے کم ہے اور یقینا پاکستان جیسے ملکوں میں جہاں انصاف اور قانون کا نظام درست نہیں وہاں ضرور ایسے کیسز کا سدباب ہونا چاہئے کیونکہ جن والدین پر یہ گزرتی ہے وہی اس دکھ کو عمر بھر جھیلتے ہیں،اغوا اور پسند کی شادیوں کے تو بہت سے قصے وہاں رقم ہو چکے ہیں تو یہ کوئی نیا قصہ نہیں ہوا لیکن کیونکہ اس کا جنم سوشل میڈیا کے دور میں ہوا ہے اس لئے یہ کہانی سر چڑھ رہی ہے ، ہر سوشل میڈیا صارف اس قصے میں اپنی کہانی ڈال رہاہے تاکہ اس کا چینل لوگوں کی دلچسپی مرکز رہے جس کا بھی ایک عدد سوشل میڈیا چینل ہے یا تووہ کبھی لاہو رکبھی کراچی میں اس جگہ پایا جاتا ہے جہاں وہ بچی اور اس کا مبینہ شوہر موجود ہوتا ہے اور وہ بھی اطمینا ن سے انٹرویو دیتے نظر آتے ہیں اور یہ سب دیکھ کر یہ سمجھ نہیں آتا کہ اگر بچی اغوا ہوئی ہے تو و ہ کیسے اغوا کار ہیں کہ کھلے عام بچی کو اغوا کر کے رکھا ہوا اور اس تک ہر خاص و عام کی رسائی ہے اور جس کادل چاہتا ہے اس کا انٹرویو کرنے پہنچ جاتا ہے اور اغوا کرنے والے ان کا استقبال کرتے ہیں تو کیا اس پر پاکستان کے قانونی اداروں کو شاباشی ملنی چاہئے کہ ایسا گروہ کھلے عام عوام کے درمیان میں کم عمر بچیوں کو اغوا کر کے رکھ رہا ہے اور کوئی قانونی کاروائی نہیں کی جارہی ،کیا وہ قانونی اداروں سے زیادہ با اثر ہیں یا بات پھر وہی ہے کہ سب کے منہ نوٹوں سے بھر دئیے گئے ہیں اور اگر یہ معاملہ نہیں ہے اور صرف پسند کی شادی کا چکر ہے تو کیوں دونوں بچوں کے والدین آپس میں معاملے کو نہیں نمٹا لیتے اتنی میڈیا کوریج کیوں لے رہے ہیں ، وہ بھی بیانات دے رہے ہیں اور ہو کچھ بھی نہیں رہا بس روزانہ کیس کا نیا پہلو سامنا آجاتا ہے کہ اب میڈیکل ہو گیا اب و ہ پھر کراچی آگئی پھر لاہور چلی گئی، بات صرف یہ ہے کہ اس طرح کے کیسز کو ان معاشروں میں اتنی پذیرائی ملنا دوسروں بچوں کے لئے غلط مثال کو پروان چڑھانا ہے ، یہ سب دیکھ کر کچے دماغ بچے پسند کی شادیوں ، گھر سے بھاگ جانا ، والدین کے خلاف نفرت کو اپنی آزادی سے جوڑ کر خود بھی ایسی ہی ترغیب پکڑیں گے ، میرا تو ان سوشل میڈیاکے چمپیئنز سے یہی کہنا ہے کہ اگر سچائی سامنے لا سکتے ہیں تو لائیں ورنہ پیسے کمانے کے لئے معاشرے میں مزید خرابیوں کو بڑھانے کی وجہ نہ بنیں۔
یورپ سے سے مزید