• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بھارت میں حکمران جماعت بی جے پی کے ترجمانوں کی طرف سے گزشتہ دنوں گستاخانہ بیانات ایک سوچی سمجھی سازش تھی، جس کا مقصد مسلمانوں کے خلاف منافرت کو ہوا دینا تھا۔ یہ تو ایک طے شدہ امر ہے کہ مسلمان کبھی ایسے گستاخانہ بیانات یا تحریروں کو برداشت نہیں کرسکتے۔ میں نے اپنے ایک کالم میں تحریر کیا تھا کہ ایسے بیانات دینے اور دلوانے والے خوب جانتے ہیں کہ ان بیانات پر مسلمانوں کا ردِعمل کیا ہو گا۔ اور پھر بی جے پی سرکار اور اس کی دہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کیا کرے گی۔میرا مقصد واضح تھا کہ مسلمانوں کی طرف سے احتجاج کرنے پر ان ہی کے خلاف مقدمات درج ہوں گے۔ ان ہی کی گرفتاریاں ہوں گی اور سرکار کی اشیر باد سے آر ایس ایس کے غنڈے مسلمانوں پر حملہ آور ہوں گے۔ اور بالکل نہ صرف ایسا ہی ہوا بلکہ بھارت نے حسب ِروایت ایک اور ڈرامہ بنایا اور پاکستان کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے کی روایت برقرار رکھی۔ اور اپنے ہی ایک شہری کو شکار کر کے اس سے ایک من گھڑت کہانی بنا لی۔ اور پاکستان کو ذمہ دار ٹھہرانے کی ایک بار پھر ناکام کوشش کی۔

بھارتی ریاست راجستھان کے شہر اودھے پور میں کنہیا لال تیلی نامی ایک درزی نے گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے ذریعے نہ صرف بی جے پی ترجمانوں کے گستاخانہ بیانات کی حمایت کی تھی بلکہ مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کے لیے خود بھی مذموم اور گستاخانہ تبصرے کئے تھے، جس کے خلاف ایک مسلمان بھارتی شہری ناظم احمد نے وہاں کی عدالت میں مقدمہ بھی دائر کیا۔ اگرچہ مذکورہ ہندو درزی کو گرفتار تو کر لیا گیا لیکن مذہبی منافرت پھیلانے کے بھارتی قانون انڈین پینل کوڈ کے سیکشن 295-Aاور 153-Aکے تحت اس سنگین جرم میں ملوث مذکورہ درزی کو دوسرے ہی دن رہا کردیا گیا ۔اس کے کچھ دنوں بعد درزی کنہیا لال تیلی کو اودھے پور شہر کے دھان منڈی علاقہ میں اس کی دکان میں قتل کر دیا گیا ۔قتل سے کچھ روز قبل مذکورہ درزی نے اس علاقے کے ایس ایچ او کو تحریری درخواست دی تھی کہ ناظم احمد اور علاقے کی مخالف کمیونٹی کے تین چار لوگوں نے نہ صرف میرے پوسٹرز اور پمفلٹ تقسیم کئے بلکہ ان میں یہ بھی ترغیب دی گئی ہے کہ یہ درزی جہاں نظر آئے اس کو قتل کیا جائے۔ جس پر مذکورہ ایس ایچ او نے ناظم احمد سمیت تمام نامزد افراد کو طلب کر لیا۔مذاکرات کے بعد ان افراد اور درزی کنہیا لال کے درمیان ایک صلح نامہ پر دستخط کئے گے۔ جس کے بعد اس درزی کو قتل کر دیا گیا۔علاقہ کے ایس پی کے مطابق تحقیقات میں ثابت ہوا کہ صلح نامہ میں شامل افراد اس قتل میں ملوث نہیں ہیں بلکہ اسی علاقے کے چند دیگر افراد ملوث ہیں جن کا تعلق مخالف کمیونٹی سے ہے اور ان میں سے چار افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ان حقائق کے پیشِ نظر بھارت کی طرف سے پاکستان کو اس واقعہ میں ملوث کرنے کی یہ بے ہودہ اور ناکام کوشش نہیں تو اور کیا ہے؟

قارئین شاید اجمل قصاب والے واقعے کو نہیں بھولےہوں گے۔ 2008ء میں بھارتی شہر ممبئی کے تاج محل ہوٹل وغیرہ پر حملے ہوئے۔ ان حملوں میں انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ کے ممبئی کے چیف ہمنت کر کرے کو ہلاک کیا گیا تھا۔ حملہ آوروں میں بھارتی حکومت کی طرف سے اجمل قصاب نامی شخص کو ملوث ظاہر کیا گیا تھا۔ اور اس کو حملہ آوروں کا کمانڈو بتایا گیا تھا جبکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس تھی۔ سی ایم فاروق نامی وکیل کے مطابق اجمل قصاب کو تو 2006سے پہلے بھارتی ایجنسیوں کے اہلکاروں نے نیپال کے شہرکھٹمنڈو سے گرفتار کیا تھا۔اس وقت اجمل قصاب سمیت تقریباً 200افراد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ اور اس سلسلہ میں ان افراد کی درخواست نیپالی سپریم کورٹ میں زیر التوا تھی، جس میں نیپالی افواج اور بھارتی ہائی کمیشن کو فریق بنایا گیا تھا۔ فاروق کے مطابق اس نے اس معاملے پر نہ صرف نیپال میں پریس کانفرنس کی تھی بلکہ پاکستانی اور بھارتی حکومتوں کو خطوط بھی لکھے تھے۔ ایک رپورٹ کے مطابق نیپال سے گرفتار ہونے والے افراد کاروبار کی غرض سے قانونی ویزوں پر وہاں گئے تھے لیکن بھارتی ایجنسیاں پاکستانیوں کو نیپال سے پکڑنے کے بعد انہیں بھارت منتقل کر دیتی ہیں۔ اور پھر انہیں ممبئی جیسے واقعات میں ملوث کر کے پاکستان کو بدنام کرنے کی گھنائونی اور ناکام کوششیں کرتی ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر بھارت کا الزام خود اس کے منہ پر طمانچہ ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ اجمل قصاب کے ساتھ دیگر افراد جو سب تربیت یافتہ دہشت گرد تھے، کو پاکستان نے کشتیوں کے ذریعے ہتھیاروں اور بموں سمیت ممبئی پہنچایا جنہوں نے ممبئی میں دہشت گرد حملے کئے۔

اس وقت دہشت گردوں سے ملنے والے موبائل فونز میں ستارہ ضلع (مہاراشٹر) کے دو افراد کے سم کارڈ ہونے کی خبر نےاس ضلع میں ہلچل مچا دی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت ایک نوجوان اور ستارہ قصبے ہی کی ایک خاتون سے پوچھ گچھ کی گئی تھی۔ اور یہ دونوں سم کارڈز ان ہی دونوں کے نام پر تھےجب کہ ستارہ شہر کے ایک معروف شخص سے بھی پوچھ گچھ ہوئی تھی۔

حقیقت یہ ہے کہ اجمل قصاب اور اسماعیل خان نہ دہشت گرد تھے نہ اس واقعہ سے ان کا کوئی تعلق تھا، ان دونوں کےموبائل فونز کو بھی ریکارڈ میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ بھارتی پولیس اور دیگر فورسز کی کسی رپورٹ سے ایسے شواہد نہیں ملے جن سے ثابت ہو کہ ممبئی حملوں میں کسی بھی طرح پاکستان ملوث تھا حتیٰ کہ مذکورہ دونوں موبائل فونز پر کی گئی 284کالز میں سے ایک بھی کال اجمل قصاب یا اسماعیل خان کو نہیں کی گئی تھی۔ ممبئی کے انسدادِ دہشت گردی اسکواڈ کے چیف ہمنت کرکرے کو بھی اس موقع پر مزید رنگ بھرنے کیلئے خود ہی قتل کیااور پورے واقعہ میں پاکستان کو ملوث کرنے کا ناکام ونامراد پروپیگنڈہ کیا گیا۔ اودھے پور کے درزی کے قتل میں بھی پاکستان کو ملوث کرنا بھارت کانیاا ور ناکام ڈرامہ ہے۔

تازہ ترین