• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

امتناعِ سود اسلام کے بنیادی اصولوں میں سے ایک ہے۔جب رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سود کی حرمت کا اعلان کیا تو مشرکین کی طرف سے یہی اعتراض پیش کیا گیا کہ تجارت بھی سود کی طرح ہی ہے تو اللّٰہ کریم نے واضح طور پر ارشاد فرمایا کہ تجارت اور سود ایک چیز نہیں بلکہ یہ مختلف صورتیں ہیں۔اور اسی لیے اللّٰہ نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام قرار دیا۔سود اور ربا کی لغوی بحث میں الجھنے کے بجائے ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام میں سود کی ممانعت کے لیے کتنے سخت احکامات بیان کئے گئے۔اور ہمیں موجودہ نظام سے چھٹکارا پانے کے لیے متبادل نظام کی جزیات طے کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔اسلام کے اولین ایام میں رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے سود کی حرمت کے حوالے سے واضح اور دو ٹوک موقف اختیار فرمایا۔کتب سیرت میں ہے کہ بنو ثقیف کے ایک وفد نے اسلام قبول کرنے کے لئے کچھ شرائط پیش کیں۔جن میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ ہم سود کا کاروبار اور لین دین ترک نہیں کریں گے۔جس پر رحمت عالم صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے یہ شرط قبول کرنے سے صاف انکار فرما دیا۔اور پھر بعد میں اس وفد کے ارکان نے ان شرطوں کے بغیر ہی اسلام قبول کیا۔

پاکستان کے بینکنگ نظام کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس وقت 5 بینک ایسے ہیں جو پاکستان میں غیر سودی بینکاری کا دعویٰ کرتے ہیں اور ان کے بقول ان کے پاس انفراسٹرکچر بھی موجود ہے جب کہ17 بینک ایسے ہیں جو سودی بینکاری کے ساتھ ساتھ اسلامک بینکاری یا غیر سودی نظام کے تحت بھی بینک کاری کر رہے ہیں۔بینکنگ کے ماہرین کے مطابق اس وقت مجموعی بینکاری کا تقریبا 20 فیصد غیر سودی بینکاری پر منتقل ہو چکا ہے۔اسٹیٹ بینک کا باقاعدہ اسلامک بینکنگ ڈیپارٹمنٹ ہے جو ریگولیٹر کا کردار ادا کر رہا ہے۔بینکنگ سیکٹر کے ماہرین کے مطابق اس وقت تمام بینکوں کے پاس اسلامی فنانسنگ کی سہولت موجود ہے۔اسٹیٹ بینک کے ریگولیٹری کردار کو دیکھتے ہوئے اس نظام کو غیر سودی نظام پر منتقل کرنے میں زیادہ پیچیدگی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔وفاقی شرعی عدالت کا پہلا فیصلہ آتے ہی اگر اس پر کام شروع کر دیا جاتا اور اس کی ابتدا اندرونی قرضوں پر سود ختم کرنے سے کی جاتی تو اب تک کافی سارا کام تکمیل کے مراحل میں ہونا تھا۔

پاکستان میں کافی عرصے سے اسلامی بینکنگ کا ایک متبادل نظام اپنے خد و خال ترتیب دے رہا ہے۔اس کی ابتدا عرب ممالک سے ہوئی تھی۔شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری نے اپنی کتاب ’’بلا سود بینکاری اور اسلامی معیشت‘‘میں 100سے زائد ایسے بینکوں اور اداروں کا ذکر کیا ہے جو جزوی طور پر بلاسود بینکاری میں مصروف عمل ہیں جن کا تعلق ایران، بنگلہ دیش، ملائشیا، مصر، سوڈان، ترکی اور برطانیہ وغیرہ سے ہے۔1998 میں جب میں برطانیہ میں بسلسلہ تعلیم مقیم تھا تب مجھے وہاں یہ معلوم ہوا تھا کہ ایچ ایس بی سی بینک بلا سود بینکاری کا شعبہ بھی شروع کر رہا ہے۔گویا کہ بلاسود بینکاری میں مسلمانوں کی دلچسپی دیکھتے ہوئے غیر مسلم ملکوں کے بینکوں نے کئی دہائیاں قبل اس پر کام شروع کیا، یہ الگ بحث ہے کہ وہ واقعتاً بلاسود بینکاری ہے یا پھر محض سراب۔پاکستان میں اسلامی بینکنگ کو فروغ دینے کا سہرا جناب مفتی تقی عثمانی اور ان کی ٹیم کے سر ہے۔بعد میں مفتی منیب الرحمان بھی اس کار خیر میں شریک ہوئے۔اب اکثر بینک اسلامی بینکنگ کے لئے انہی حضرات کے فتاویٰ پر انحصار کرتے ہیں۔ان کی کوششوں سے پاکستان میں اسلامی بینکوں کے کاروبار میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور اس وقت اسلامی بینکوں کے پاس مجموعی بینکنگ سیکٹر کے اثاثوں کا تقریبا 18 فیصد موجود ہے۔توقع ہے کہ 2025 تک یہ شرح 30 فیصد تک پہنچ جائے گی۔تاہم علمائے کرام کی ایک بہت بڑی تعداد ان بینکوں کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کرتی۔ان کا کہنا ہے کہ مروّجہ اسلامی بینکوں میں مضاربہ اور مشارکہ کے اسلامی اصولوں کے مطابق لین دین نہیں ہوتا۔بلکہ وہ مرابحہ اور اجارہ کی اصطلاحات استعمال کر کے قرضوں پر متعین شرح سے اضافی رقم وصول کر رہے ہیں جو درحقیقت سود ہی ہے۔ اس عمل کواگر مزید سادہ الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ کچھ یوں ہوگا کہ اسلامی بینک یا روایتی بینک اگر گھر یا گاڑی فنانس کرتا ہے تو دونوں کی شرح منافع ’’راچی بینک آفرڈ ریٹ‘‘(کائبور)کی بنیاد پر طے ہوتی ہے۔صارف بینک کو کتنے پیسے دے گا، اس کی شرح بھی کائبور سے ہی طے ہوتی ہے جب کہ اسلامی اور روایتی بینک اس شرح سے کچھ اضافی رقم وصول کرتے ہیں جو صارف ہر ماہ ادا کرتا ہے۔اس بنیاد پر علما کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اسلامی بینکنگ بھی روایتی بینکنگ کی طرح ہے،جس طرح اسلامی شہد اور اسلامی کھجوریں بیچی جاتی ہیں اسی طرح گویا شراب کی بوتل پر شہد کا لیبل لگا کر کام چلایا جا رہا ہے۔اگر اسلامی بینکنگ اس کی روح کے مطابق شروع کرنی ہے تو کائبور کی طرز پر الگ ادارہ قائم کیا جانا چاہئے۔

ان تکنیکی مشکلات کے باوجود پاکستانی قوم کی اکثریت غیر سودی بینکاری کی طرف آنا چاہتی ہے۔میری تجویز ہے کہ پاکستان کے جید علماء جن میں حضرت پیر محمد امین الحسنات شاہ،مفتی تقی عثمانی،مفتی منیب الرحمن،علامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری،علامہ امین شہیدی ،جناب سراج الحق،ڈاکٹر امجد ثاقب اور اس سطح کے بڑے علما مل کر بیٹھیں اور ان سوالات کے جوابات دیں جو عام آدمی کے ذہن میں ہیں۔ڈاکٹر امجد ثاقب تو عملی طور پر بلاسود قرضوں کی فراہمی کا کامیاب تجربہ کر چکے ہیں۔اخوت نے ہزاروں لوگوں کی زندگیاں بدل دی ہیں اور ادارہ نے ایک روپیہ اضافی وصول نہیں کیا۔قرضوں کی واپسی کی شرح 99فیصد ہے۔اب وقت آگیا ہے بلاسود بینکنگ کا عملی نظام نافذ کیا جائے۔ اللّٰہ کے ساتھ جنگ کون جیت سکتا ہے؟ہم مل کر اللّٰہ کی بارگاہ میں اپنی عاجزی کا اظہار کرتے ہوئے سود سے توبہ تاکہ اللّٰہ کی رحمت ہمارے ملک کا رخ کرے۔

تازہ ترین