• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھ حق گو اپنے ضمیر کے اس قدر اسیر ہوتے ہیں کہ وہ محض اس وجہ سے سچ کا برملا اظہار کرنے سے نہیں ڈرتے کہ ان کے مدّ ِ مقابل کون ہے؟ وہ حضرت علیؓ کے اس مقولے پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ یہ مت دیکھو کون کہہ رہا ہے صرف یہ سنو کہ کیا کہا جا رہا ہے۔ ایسے سچّے اور بہادر لوگ ساری عمر تلوار کی دھار پر چلتے ہوئے گزاردیتے ہیں لیکن اپنی آنے والی نسلوں کے راستے سے خوف اور کذب کے کانٹے اپنی پلکوں سے چُن لیتے ہیں۔ پروفیسر وارث میر بھی ایسے ہی باغی، بے خوف اور سچّے لکھاری تھے، جن کی تحریریں آمریت کے اندھیرے میں جمہوریت کی کرنوں سے منور تھیں۔ جب بڑے بڑے دانشور قصرِ سلطانی میں جبّہ و دستار کی طلب میں اپنے قلم کا سودا کر رہے تھےتوپروفیسر وارث میر بے سروسامانی اور خوف کے ماحول میں بھی اپنے قلم کو تیر بنا کر اپنے ضمیر کی کمان سے غاصبوں پر حملہ آور ہور ہے تھے۔ دائیں بازو کے لوگ انہیں لیفٹسٹ قرار دیتے تھے کیونکہ وہ رائٹسٹ کی دین فروشی اور منافقت کا پردہ چاک کرتے تھے جب کہ بائیں بازو والے انہیں رائٹسٹ ہونے کے طعنوں سے نواز تے تھے کیونکہ وہ اسلام کے ترقی پسند تصّور اور جمہوریت کے پرچارک تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ ان مروجہ اصطلاحات سے بے نیاز ایک حق پرست اور حق گو انسان تھےاور اس حقیقت پر ایمان رکھتے تھے کہ ہر انسان میں کوئی نہ کوئی خامی ضرور ہوتی ہے لیکن ’’سچائی‘‘ میں کوئی خامی نہیں ہوتی اور یہی کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ حق اور سچ ہی اس دنیا میں خدائی وجود کا پرتو اور عکس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر طبقہ فکر کے لوگ ان کے معترف بھی تھے اور معترض بھی۔ ایسے ہی لوگوں کے لیے علامہ اقبالؒ نے کہا تھا کہ

اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش

میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند

جنرل ضیاء کا دورِ ستم صرف پاکستانی سیاست اور معاشرت کے لیے ہی زہرِ قاتل نہ تھا بلکہ اس کا سب سے بڑا نشانہ ہماری صحافت تھی کیونکہ صحافیوں کا قلم ہی انہیں بغاوت پر اکساتا ہے اور یہی قلم زہرِ ہلاہل کو قوم کی سوچوں میں منتقل کرتا ہے، پروفیسر وارث میر نےاپنی تحریروں سے غاصبوں کے خلاف آخری دم تک علمِ جہاد بلند کرتے رہے ان کی تحریر کردہ کتابیں’’ فوج کی سیاست‘‘، ’’کیا عورت آدھی ہے؟‘‘ اور ’’فلسفہ خوشامد‘‘۔ ہمارے معاشرے کی محرومیوں کا نوحہ ہی نہیں بلکہ ان کے خلاف اعلانِ جنگ بھی ہے۔ ’’فوج کی سیاست‘‘ کے ایک آرٹیکل ’’دی پاکستان آرمی‘‘ میں وارث میر لکھتے ہیں کہ ’’اسٹیفن کوہن کے مطابق پاکستانی فوج کا ایک مؤ قف یہ ہے کہ وہ ملک کی اقتصادیات پر بوجھ نہیں بننا چاہتی ۔ فوج کے تربیت یافتہ افسر اور سپاہی لڑنے کے علاوہ امن کے دنوں میں ترقیاتی منصوبوں پر کام کر سکتے ہیں۔ پل اور سڑکیں بنا سکتے ہیں۔ ہسپتال تعمیر کر سکتے ہیں ، بلوچستان کے علاقے میں پاکستانی فوج نے اپنی تعمیراتی مہارتوں کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔ فوجی افسروں کا یہ دعویٰ بھی ہے کہ شاہراہِ قراقرم فوج کی اعانت کے بغیر نہیں بن سکتی تھی لیکن فوج کا ’’سول کردار‘‘ پھیل کر اب نیم خود مختار اداروں تک بھی پہنچ گیا ہے اور مختلف قومی اداروں میں، مختلف عہدوں پر، فوج کے افسروں کو بھیجا جا رہا ہے۔ ایوب خان کے فوجی انقلاب کا ایک جواز یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اس نے ایک نیا سیاسی ڈھانچہ تعمیر کر کے، سول اور فوج کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن یہ حقیقت اپنی جگہ قائم رہتی ہے کہ سیاسی مسائل بہر حال فوجی مسائل سے مختلف ہوتے ہیں اور جرنیل دونوں طبقوں میںکوئی معقول تعلق یا توازن قائم کرنے میں ناکام رہے۔‘‘ وارث میر کا یہ کالم کئی عشرے پہلے کا لکھا ہوا ہے۔ لیکن یوں لگتا ہے کہ وہ آج کے پاکستان کے حالات کی پیش گوئی تھا ۔حال ہی کی مثال ہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ ریٹائرڈ جنرل ظہیرالاسلام سمیت کئی افراد اس غیر آئینی عمل کا حصّہ بننے کا اعتراف کر چکے ہیں۔ عمران پروجیکٹ کی جو قیمت پاکستانی عوام اس وقت ادا کر رہے ہیں، اس کی نشان دہی پروفیسر وارث میر جیسے دور اندیش اور حق گو دانشور کئی سال پہلے کر چکے ہیں۔ وارث میر تو پاکستانی فوج کے مشرقی بنگال میں ملٹری ایکشن کے خلاف بھی پیشگی وارننگ دیتے رہے کہ اپنے ہی عوام کے خلاف طاقت کا استعمال خوفناک نتائج کا حامل ہو گا۔ مگر اقتدار کے نشے میں بہرے اور اندھے حکمرانوں کو کچھ سنائی اور کھائی نہیں دیا۔ لیکن مشرقی بنگالیوں نے وارث میر اور ان جیسے حریت پسند اور حق گو لکھاریوں کو ’’فرینڈ ز آف بنگلہ دیش‘‘ ایوارڈ بعد از مرگ دے کر انہیں وہ خراجِ عقیدت پیش کیا جس کے وہ بجا طور پر مستحق تھے۔

اسی طرح ’’کیا عورت آدھی ہے؟ ’’میں وارث میر نے جس طرح ضیاء الحق کے منافقانہ دور میں عورتوں کے حقوق اور ان کے خلاف امتیازی قوانین کے خلاف مذہبی استحصالی طبقوں کو قرآن و سنت کے حوالے سے بے نقاب کیا وہ انہی کی حق گوئی کا حصّہ ہے۔ پروفیسر وارث میر کی حق گوئی کے وارث ان کے بیٹے حامد میر، فیصل میر ، عامر میر اور عمران میر بھی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنے عظیم باپ کی وراثت کو آگے بڑھا رہے ہیں کیونکہ وارث میر کا نعرہ تھا،

انسان سمجھتے ہو تو کچھ کہنے کا حق دو

پتھر ہوں اگر تو میری دیوار بنا دو

نغمات بغاوت کے سدا گونجیں گے چاہے

اس ملک کے ہر چوک میں اک دار بنا دو

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین