• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
مجھے کالاباغ ڈیم منصوبے کے بارے میں جس بات نے اتفاق رائے کی کھوج پر مائل کیا، وہ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ میں ٹرانس بائونڈری واٹر مینجمنٹ کی ڈائریکٹرMs.Sjomander Magnusson کی تحقیق ہے،جس میں انہوں نے مختلف ممالک یا ایک ہی ملک کے مختلف علاقوں کے درمیان تمام آبی تنازعات کا احاطہ کیا ہے۔ اپنی تحقیق میںوہ اس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ پانی کے معاملات پر جنگیں ہونے کے جس خطرے کا گزشتہ چند عشروں کے دوران پروپیگنڈہ کیا جاتا رہا ہے ، وہ موجودہ صورتِ حال کی عکاسی نہیں کرتا۔جن علاقوںیا ممالک کے درمیان آبی تنازعات موجود تھے انہوں نے پانی کی تقسیم کے بارے میں ایک دوسرے کیساتھ مذاکرات کئے ہیں ۔ اپنی تحقیق میں انہوں نے پانی پر جنگوں کے نظریہ میں تبدیلی کی جو بنیادی وجہ بتائی ہے وہ لوگوں میں پیدا ہونے والا یہ ادراک ہے کہ پانی انسانی زندگی کیلئے لازم ہے اور اسے بانٹ کر استعمال کرنا چاہئے۔انسانی تہذیب کے ارتقاسے ہم مارک ٹوئین کے زمانے کو بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں ،جب انہوں نے امریکہ میں پانی کے جھگڑوں سے مایوس ہو کر طنز بھرے لہجے میں لکھا تھا کہ ’’وہسکی پینے کیلئے ہے اور پانی لڑائی کیلئے‘‘۔اقوام اور علاقوں کے درمیان پانی پر تنازعات کوئی نئی بات نہیں۔ یہ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔ تاہم دریائوں پر قابو پاکر آبی ذخائر تعمیر کرنے کی صلاحیت نے ان تنازعات میں شدت پیدا کردی ہے۔آبی ذخائر ڈیموں کی تعمیر پر زیریں علاقوں میں رہنے والے لوگ ہمیشہ بالائی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار رہے ۔کیونکہ اِس طرح زیریں علاقوں کیلئے دریائوں کے پانی کا بہائو متاثر ہوسکتا تھا۔
ان تنازعات کے نتیجے میں اصول اور قوانین وضع کئے گئے تاکہ زیریں علاقوں میں آباد لوگوں کے پانی استعمال کرنے سے متعلق تاریخی حقوق کا تحفظ کیا جاسکے۔پاکستان میں سمجھا جاتا ہے کہ پانی کے مسائل حل نہیں ہوسکتے، مگر اِس سلسلے میںبین الاقوامی تنازعات کے کامیاب حل سے ہماری حوصلہ افزائی ہوتی ہے، کہ ہم بھی اپنے آبی تنازعات بشمول کالاباغ ڈیم جیسے غیر معمولی مسئلے کو حل کرنے کیلئے اتفاقِ رائے کے امکان کو تلاش کر سکتے ہیں۔پاکستان میں پانی کے مسائل پر اتفاق میں ناکامی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم عالمی سطح پر واٹر مینجمنٹ اور تنازعات کے حل کے بارے میںپوری طرح واقف نہیں۔ ہمیں اس بات کا علم ہونا چاہئے کہ یہ مسائل صرف پاکستان میں ہی نہیں ہیں بلکہ دوسرے ممالک نے بھی اِن مسائل کا سامنا کیا ہے اور اکثر صورتوں میں وہ ان کا حل تلاش کرنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔محترم قارئین! اِس ضمن میں ایک واقعہ مثال کے طور پر پیش کرنا چاہوں گا، جس کی بدولت ہمارے ملک میں پانی کے مسائل پر اتفاقِ رائے کا حصول بری طرح متاثر ہوا۔ پانی کے مسائل پر اتفاقِ رائے کیلئے جنرل پرویزمشرف نے نومبر 2003ء میں ٹیکنیکل کمیٹی قائم کی اور ایک قابلِ احترام انجینئرجناب اے این جی عباسی کو اس کا چیئرمین تعینات کیا۔ عباسی صاحب زرعی معیشت کیلئے آبی ذخائر کی تعمیر کی ضرورت سے بخوبی آگاہ تھے،تاہم انہیں اس بات کا موقع نہ مل سکا کہ وہ آبی ذخائر کی تعمیر کے حوالے سے عالمی سطح پر ہونے والی پیش رفت کا مطالعہ کرسکیں۔اِن کی رپورٹ میں اِس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ وُہ دنیا کے چندبڑے دریائوںمیںپانی ذخیرہ کرنے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے خواہش مند تھے لیکن کمیٹی میں شامل دیگر ارکان نے اس بات سے اتفاق نہیں کیا۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ٹیکنیکل کمیٹی اِس بات کیلئے تیار ہوجاتی تو ان کی جانب سے بنائی گئی رپورٹ یکسر مختلف ہوتی۔
بدقسمتی سے وفاقی حکومت نے بھی دوراندیشی پر مبنی کردار ادا نہیں کیا اور کمیٹی کے ارکان کیلئے اس اہم بین الاقوامی مطالعہ کا موقع ضائع کر دیا گیا، ورنہ اس مطالعہ کی بدولت پانی کے مسائل پرصوبوں کے درمیان کسی اتفاقِ رائے تک پہنچنے میں مدد مل سکتی تھی۔گزشتہ سال مجھے مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر عُقیلی سے ملنے کا اتفاق ہوا۔ وہ انجینئرنگ کے شعبہ میں ایک نامور استاد ہیںاورامریکی دریا کولاراڈو کے علاقے کا دورہ کرچکے ہیں۔ اُنہیںاِس بات پر بہت حیرت تھی کہ دریائے کولاراڈوکے مقابلے میں دریائے سندھ پر پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت انتہائی کم ہے۔ قارئین کی معلومات کیلئے عرض ہے کہ دریائے کولاراڈوپر سالانہ اوسط بہائو کے مقابلے میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت 497 فیصد جبکہ دریائے سندھ پردس فیصد سے بھی کم ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمیںآبی وسائل سے متعلق اپنے مستقبل کے انتظام کے بارے میں جانناہے تو عالمی تجربات کی غیرجانبدارانہ تحقیق اِس کام کا نقطۂ آغاز ثابت ہوسکتی ہے۔ دُنیا میں 263 دریا اور جھیلیں جبکہ تقریباً 300 آبی ذخائر ایسے ہیں جو بیک وقت ایک سے زائد ممالک کی حدود میں واقع ہیں۔ دُنیا کے مجموعی تازہ پانی کا 60 فی صد ان دریائوں اور جھیلوں میں بہتا ہے ۔ جبکہ دُنیا کی 40 فی صد آبادی اِن دریائوں اور جھیلوں کے پانی سے استفادہ کرنے والے علاقوں میں مقیم ہے۔ دنیا کے کم و بیش 148 ممالک ان بین الاقوامی دریائوں اور جھیلوں میں شراکت دار ہیں، جبکہ 21 ممالک کلی طور پر ان دریائوں اور جھیلوں کی حدود میں واقع ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق تاحال بین الاقوامی دریائوں کے 60فیصد میںکوئی مشترکہ انتظامی ڈھانچہ موجود نہیں ہے۔ اس کے باوجود پانی کے مشترکہ وسائل پر گزشتہ صدی کے دوران مختلف اقوام کے درمیان محض سات معمولی جھڑپیں ہوئیں ۔ جبکہ اسی عرصہ میں پانی کے معاملات کو طے کرنے کیلئے 300 معاہدے طے پائے۔درجِ ذیل معاہدوں کی بدولت نہ صرف دو یا دو سے زائد فریقین کے درمیان تنازعات کو حل کرنے میں مدد ملی بلکہ مشترکہ آبی گزرگاہوں سے متعلق جدید بین الاقوامی قانون بھی وضع کئے گئے۔ (1) میڈرڈ اعلامیہ 1911 ء کے تحت دریا کے قرب و جوار میں واقع ممالک کو یہ اجازت حاصل ہوئی کہ وہ اپنے پانی کو آزادانہ طور پر مصرف میں لا سکتے ہیں بشرطیکہ اُن کا یہ عمل کسی دوسرے شراکتی ملک کیلئے نقصان دِہ نہ ہو۔(2) ایک سے زائد ممالک کے مابین ہائیڈرالک پاور کو ترقی دینے کیلئے 1923 ء کا جنرل کنونشن۔ (3) سوئیڈن اور ناروے کے درمیان 1929 ء میں طے پانے والا کنونشن۔ (4) امریکہ اور کینیڈا کے مابین 1909 ء میں بائونڈری واٹر معاہدہ ۔(5) کولاراڈو اور لوئر گرینڈے معاہدہ، امریکہ اور میکسیکو کے درمیان اس معاہدے پر 1944ء میں دستخط ہوئے۔ (6) امریکہ اور کینیڈا کے مابین دریائے کولمبیا کے بارے میں 1961ء کا معاہدہ۔ (7) دریائے نیل کا معاہدہ : برطانوی راج کے دوران 1929ء میںیہ معاہدہ مصر اور سوڈان کے درمیان طے پایا۔ لیکن 1956ء میں سوڈان نے آزادی کے حصول پر اسے منسوخ کر دیا، تاہم دونوں ممالک کے درمیان 1959 ء میں یہی معاہدہ ازسرِنو طے پایا۔ (8) ماحولیاتی تحفظ کیلئے زیمبیزی دریا کے مشترکہ انتظام کی خاطرجنوبی افریقہ ڈویلپمنٹ ایگریمنٹ 1987 ء (9) ایمزون تعاون معاہدہ، جس پر 1978 ء میں دستخط کئے گئے۔ (10) دریائے پارانا ، گواہرا آبشار اور وائے گازو دریا کے استعمال کیلئے 1973 ء میں پیراگوئے اور برازیل کے درمیان طے پانے والا معاہدہ۔ (11) اسرائیل، اُردن اور تنظیم آزادی ٔ فلسطین کے درمیان 1994 ء کا امن معاہدہ۔ (12) دریائے میکونگ کی پائیدار ترقی کیلئے تعاون کا اعلامیہ، جس پر 1995 ء میں تھائی لینڈ ، لائوس ، کمبوڈیا اور ویت نام نے دستخط کئے اور جس کی بدولت میکونگ ریور کمیشن کا قیام عمل میں لایا گیا۔مذکورہ بالا تفصیل کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہمیں تنازعات سے خائف نہیں ہونا چاہئے بلکہ ان کے حل کیلئے راہ تلاش کرنی چاہئے۔ اوپر بیان کی گئی مثالوں سے ایسے شعبوں کی نشاندہی ہوتی ہے، جن میں مختلف ممالک پانی کے وسائل سے استفادہ کرنے کیلئے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں۔ یہ مثالیں ہمارے لئے اس بات کی تکلیف دِہ یاد دہانی ہیں کہ ہم اپنے خود ساختہ شکوے شکایات سے دست بردار ہونے کیلئے سیاسی صف بندی کو خیرباد کہنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ آئندہ چند اقساط میں ایسی مثالیں پیش کی جائیں گی تاکہ کسی ایسے طریقہ کار کی نشاندہی ہوسکے جس کی مدد سے ایک دوسرے کے نقطۂ نظر کو تسلیم کرتے ہوئے باہمی تعاون کے جذبہ کے تحت ان مسائل کو حل کیا جاسکے۔
تازہ ترین