• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برسلز کی خوبصورت سڑکوں کو تیزی سے پیچھے چھوڑتے ہوئے ہم بذریعہ کار ہالینڈ کے دارالحکومت ایمسٹرڈم روانہ ہوچکے تھے جیسے جیسے یورپ کی خوبصورتی ،اعلیٰ معیار کی تعمیرات اور بہترین ترقی سے متعارف ہورہا تھا ،بحیثیت قوم احساس محرومی میں اضافہ ہی ہورہا تھا ، افسوس ان پاکستانی عوام پر تھا جنھیں شاید اپنی زندگی میں دنیا کی وہ ترقی دیکھنے کا موقع ہی نہ ملے جس سے دنیا خاص طور پر ترقی یافتہ ممالک لطف اندو ز ہورہے ہیں ، میرے ساتھ اس سفر میں جاپان سے آنے والے عازم سفر ملک سلیم کے ساتھ برسلز میں ہمارے دوست بابر پسیہ صاحب بھی موجود تھے جو کسی زمانے میں جاپان میں رہا کرتے تھے لیکن پھر اہل خانہ کیساتھ ہی برسلز منتقل ہوگئے ، بابر صاحب کے اصرار پر برسلز سے بذریعہ کار ایمسٹر ڈم کے سفر کا فیصلہ کیا، یورپ آنے والوں کومشورہ ہے کہ وہ لازمی یورو ریل پاسز یورپ آنے سے قبل ہی انٹرنیٹ کے ذریعے انتہائی کم قیمت پر خرید سکتے ہیںجس کے ذریعے پورے یورپ کا سفر دنیا کی بہترین اور جدید ترین ٹرینوں کے ذریعے انتہائی کم نرخوں پر کیا جاسکتا ہے۔بابر پسیہ صاحب ہمیں بتارہے تھے کہ ہالینڈ کا دارالحکومت تو ایمسٹرڈم ہے لیکن یہاں کی پارلیمنٹ ہیگ میں واقع ہے ، جبکہ یہاں بادشاہت بھی موجود ہے، اہم اورچونکادینےوالی بات یہ ہے کہ یہاں چرس انتہائی آسانی سے دستیاب ہوتی ہے جبکہ یہاں چرس پینا اور بیچنا قانونی طور پر جرم بھی نہیں ہے اور آپ کسی بھی کافی کیفے یا دکان سے کچھ مقدار میں چرس باآسانی حاصل کرسکتے ہیں ، میرے لئے یہ کافی حیرانی کی بات ہے کہ غریب ممالک میں جہاں چرس اور افیون کے خلاف عالمی ادارے مہم چلاتے ہیں انھیں ہالینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک چرس کے قانونی استعمال پر کوئی اعتراض نہیں ہے ،بہرحال ایمسٹرڈم میں داخل ہوتے ہی خوبصورت عمارتیں ، شاندار گاڑیاں اور لوگوں کا رہن سہن یہاں کی معاشی ترقی کی داستان سنارہا تھا ، شام ہوچکی تھی ہلکی ہلکی بارش نے موسم کو خوشگوار بنادیا تھا لیکن یہ موسم ہالینڈ کے شہریوں کیلئے تکلیف دہ تھا کیونکہ ان کے کاروبار زندگی پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے،ہلکی ہلکی پھوار چاہے ہالینڈ کے شہریوں کے لئے تکلیف کا باعث ہو لیکن کم از کم ہم جیسے پاکستانیوں کے لئے ہلکی ہلکی پھوار انتہائی رومانوی کشش رکھتی ہے ، ہالینڈ کے لوگ یورپ میں بھی کافی لمبے چوڑے شمار کئے جاتے ہیں ، ورزش کرنا ان کا بہترین مشغلہ ہے ، خواتین اور مرد سڑکوں پر جاگنگ کرتے نظر آرہے تھے جبکہ کچھ تیز رفتار سائیکلنگ کرتے ہوئے اپنی ورزش کا شوق پور ا کررہے تھے ، یہاں بھی جدید اور تاریخی عمارتوں کا امتزاج تھا ، جبکہ شہر کے بیچوں بیچ دریا ایسے تھے جیسے سڑکیں ، جہاں درمیان میں کشتیاں نہ صرف سیاحوں کو شہر کی سیر کرارہی تھیں بلکہ دریا کے ساتھ موجود گھروں کے لوگوں کیلئے ٹرانسپورٹ کا کام بھی کررہی تھیں ، سڑکوں پر ہزاروں کی تعداد میں سیاح موجود تھے ہم کسی بھی کیفے یا ریستوران کے پاس سے گزرتے تو چرس کی انتہائی نا خوشگوار مہک ایک ناخوشگوار احساس پیدا کررہی تھی لیکن بہت سے منچلے چرس کی خوشبو سونگھ کر کیفے اور ریستورانوں میںداخل ہورہے تھے ،یہاں پانچ سو سال سے لیکر ایک ہزار سال پرانی عمارتوں کو تاریخی ورثہ قرار دیا جاچکا ہے ،ان عمارتوں کی بیرونی چھیڑ چھاڑ سختی سے منع ہے جبکہ اندرونی طور پر عمارتوں کو جدید طرز پر ڈھال دیا گیا ہے ، لہذا آج بھی ایمسٹرڈم کی پانچ سو سال پرانی خوبصورتی اسی طرح برقرار ہے ، ایک روز بعد ہم فرانس کے دارالحکومت پیرس پہنچ چکے تھے، برسلز سے بلٹ ٹرین کے ذریعے صرف ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت کے بعد ہم روشنیوں اور محبتوں کے شہر پیرس میں موجود تھے ، پیرس ریلوے اسٹیشن پر ہمیں ریسیو کرنے فرانس کی معروف سماجی و سیاسی شخصیت پاپا ریاض موجود تھے ، پاپا ریاض کی عمر تو ستر برس کے لگ بھگ تھی لیکن صحت اور جسمانی اعتبار سے پچاس اور پچپن برس کے ہی لگتے تھے ، چوالیس برس قبل فرانس میں آئے اور پھر یہیں سیٹ ہوگئے ، ان کی ایک صاحبزادی فرانس میں ہی جج کے عہدے پر فائز ہیں جبکہ دیگر بچے بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں ، پاپا ریاض سے متعارف کرانے میں جاپان میں مقیم ن لیگ جاپان کے صدر ملک نور اعوان ذریعہ بنے ، پاپا ریاض نے اگلے چند گھنٹوں میں ہی ہمیں پیرس کی چند اہم اور مشہور جگہوں کی سیر کرادی جسکے بعد ہم فرانس میں پاکستانی سفارتخانے پہنچے ، شانزلے لیزے کے نزدیک واقع پاکستانی سفارتخانہ خوبصورتی اور معیار کے حوالے سے کسی مقامی عمارت سے کم نہیں تھا ، عمارت کے اندر بھی خوبصورت فرنیچر اور دبیز قالین قابل دید تھا ، معلوم ہوا کہ موجود ہ سفیر غالب اقبال نے پچھلے تین سالوں میں نہ صرف عمارت میں بہترین انداز میں کفایت شعاری کیساتھ تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا ہے بلکہ کمیونٹی کیلئے بھی بہترین سہولتیں فراہم کی ہیں ، سفارشی کلچر ختم کردیا گیا ہے اورسفارتی عملے کو بھی کمیونٹی کیساتھ بہترین رویہ اپنانے کا پابند کیا گیاہے ، غالب اقبال سے ہونے والی ملاقات میں پاکستان کو عالمی سطح پر درپیش چیلنجز پر بات ہوئی۔ پاکستان کاعالمی امیج بہتر بنانے کیلئے سفیر صاحب نےیہ اہم تجاویز دیں کہ پاکستان امریکہ میں سیاسی لابنگ کیلئے دوسرے ممالک کی طرح خاصی رقم خرچ کرتا ہے لیکن اگر پاکستان امریکہ کی فلم انڈسٹر ی میں لابنگ کرکے ہر آنے والی فلم میں پاکستان کا نام مثبت طریقے سے ڈلوا سکے تو پوری دنیا میں پاکستان کا سافٹ اور بہتر امیج قائم ہوسکے گا ، اسی طر ح اگر پاکستان یورپ میں معروف فٹبال کلب خرید کر اس کا نام پاکستان سے منسوب کردے تو یورپ میں پاکستان کو عوامی سطح پر شہرت حاصل ہوسکتی ہے ، جبکہ افریقی ممالک جہاں پوری دنیا سرمایہ کاری کررہی ہے اور پاکستان اپنے سفارتخانے بند کررہاہے ان ممالک میں اگر اچھے سفیروں کو اس وعدے کے ساتھ تعینات کردیا جائے کہ ان کے بچوں کو یورپ یا دیگرممالک میں تعلیم فراہم کی جائے گی تو یہ بھی پاکستان کے لئے بہترین ثابت ہوسکتا ہے ، لیکن مجھے ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی وزارت خارجہ میں انفرادی طورپر افسران تو انتہائی قابل ہوسکتے ہیں لیکن اجتمائی سطح پر وہ کارکردگی نظر نہیں آتی جس کی ہمارے ملک کو ضرورت ہے خاص طور پر بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیو کے معاملے پر ہماری خارجہ پالیسی انتہائی ناقص نظر آئی جس کا سفیرغالب اقبال کو بھی افسوس تھا ، بہرحال ہماری اگلی منزل پیرس کا ایک معروف ریستوران تھا جہاں میری کتاب جاپان نامہ کی تقریب رونمائی منعقد ہونے والی تھی ۔تقریب رونمائی میں فرانس کی تمام اہم شخصیات موجود تھیں جن میں مسلم لیگ ن جاپان کے صدر پاپا ریاض ، پیپلز پارٹی جاپان کے صدر ارشاد کمبوہ ، ن لیگ یورپ کے چیف آرگنائزر شمروز گھمن ،راجہ اشفاق سمیت سینئر صحافی رضا چوہدری سمیت کئی صحافیوں شامل تھے ۔
تازہ ترین