• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی خراب ہوتی معاشی صورتحال کے باعث ملک میں سیاسی اور معاشی غیر یقینی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔موجودہ حکومت کی طرف سے ملک کی معاشی صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے گزشتہ حکومت پر مسلسل الزام تراشی سےان کے اپنے بارے میں کئے گئے اہلیت اور قابلیت کے دعوے مشکوک ہوتے جا رہے ہیں ۔اس وقت ملک کو جو معاشی چیلنجز درپیش ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نئی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے فوری بعد فیصلہ سازی میں سست روی اپنائی جس کی وجہ سے معاشی مسائل گمبھیر تر ہوتے جا رہے ہیں اور اب حالات یہ ہو چکے ہیں کہ تمام شرائط مانے بغیر آئی ایم ایف سے قرض ملنے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔

اس حوالے سے ماضی میں تحریک انصاف کی حکومت کے بجٹ کو 'پی ٹی آئی، ایم ایف بجٹ قرار دے کر تنقید کرنے والے پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی خاموش ہیں۔ علاوہ ازیں وفاقی حکومت کی طرف سے آئندہ مالی سال 23-2022ء کے لئے 95کھرب دو ارب روپے کا جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں متوسط طبقے کیلئے کوئی خاص ریلیف نہیں وفاقی بجٹ کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو اس میں غریب طبقے کے لئے تو کچھ نہ کچھ ریلیف موجود ہےلیکن اس میں جو طبقہ سب سے زیادہ نظر انداز ہوا ہے اور جس پر سب سے زیادہ بوجھ پڑنے والا ہے، وہ متوسط طبقہ ہے۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے ٹیکسوں کی مد میں ہونے والے اضافے اور تیل و گیس پر لیوی کی مد میں اضافی محصولات کی وصولی سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور اس کا سب سے زیادہ بوجھ متوسط طبقے کو برداشت کرنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں اس بجٹ میں کچھ ایسے ٹیکس اور لیویز بھی شامل ہیں جن کا بجٹ تقریر میں تو ذکر نہیں کیا گیا لیکن یہ محصولات فنانس بل میں شامل ہیں۔ ا گرچہ وفاقی بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اور ریٹائرڈ سرکاری ملازمین کی پینشن میں پانچ فیصد اضافے کا اعلان کرنے کے علاوہ تنخواہ دار طبقے کیلئے بھی چھ لاکھ کی سالانہ آمدنی پر ٹیکس چھوٹ کے ساتھ ساتھ چھ لاکھ سے 12لاکھ تک کی آمدنی پر صرف سو روپے ٹیکس ادا کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔تاہم اس کے علاوہ متوسط طبقے کیلئے اس بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں ۔ وفاقی حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ میں سب سے زیادہ اضافہ تیل مصنوعات پر پٹرولیم لیوی کی مد میں کیا گیا۔

اس حوالے سے اگلے مالی سال میں 750ارب روپے اکٹھے کرنے کا ہدف مقرر کیا گیاہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگلے مالی سال کے شروع میں ایک لیٹر پٹرول اور ڈیزل پرصارفین سے مزید 30 روپے وصول کئے جائیں گے۔ واضح رہے کہ گزشتہ حکومت نے اس مد میں مجموعی طور پر 135ارب روپے وصول کئے تھے اور پھر مہنگائی کے اثرات کو کم کرنے کیلئے اس مد میں وصولی کو صفر کر دیا تھا۔ اسی طرح موجود ہ حکومت نے آئندہ مالی سال میں گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں وصولی کا ہدف 25 ارب روپے سے بڑھا کر 200 ارب روپے مقرر کیا ہے جو گیس کی قیمت میں اضافہ کر کے وصول کیا جائے گا۔علاوہ ازیں ایل پی جی پر لیوی کا موجودہ ہدف پانچ ارب سے بڑھا کر آٹھ ارب روپے کر دیا گیا ہے اور اس کا بوجھ بھی صارفین پر ڈالا جائے گا۔اس کے ساتھ ساتھ آئندہ مالی سال کیلئے محصولات وصولی کا ہدف سات ہزار ارب روپے رکھا گیا ہے۔اس سلسلے میں ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کی مد میں ساڑھے چار ہزار ارب روپے اکٹھے کئے جائیں گے جس میں سیلز ٹیکس ، ایکسائز ڈیوٹی اور کسٹم ڈیوٹی شامل ہے۔ اس طرح صارفین کے عام استعمال کی اشیاء اور بیرون ملک سے درآمد ہونے والا خام مال یا دیگر مصنوعات مزید مہنگی ہو جائیں گی۔ وفاقی بجٹ میں تجویز کئے گئے ان اقدامات سے ناصرف بجلی، گیس اور پیٹرول کےنرخ زیادہ ہو جائیں گے بلکہ انہیں سیلز ٹیکس اور لیوی میں اضافے کے باعث بھی اضافی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملک کے موجودہ حالات میں ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت ان ڈائریکٹ ٹیکسز میں اضافے کی بجائے ڈائریکٹ ٹیکس کے ذریعے آمدنی بڑھانےکیلئے اصلاحات کرتی تاکہ متوسط طبقے کو مہنگائی کے اثرات سے بچایا جا سکےلیکن حکومت نے اس میدان میں بھی آسان اور روایتی پالیسی کو ہی جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ وفاقی بجٹ میں آئندہ مالی سال میں مہنگائی کی شرح کا ہدف 11فیصد رکھا گیا ہے جوحقیقت پر مبنی نہیں کیونکہ اس وقت ملک میں مہنگائی کی شرح 24 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ ملک میں کام کرنے والے تنخواہ دار طبقے کا70 فیصد حصہ غیر رسمی معیشت میں کام کرتا ہے اور ان کی تنخواہیں بڑھنے کا امکان انتہائی کم ہوتا ہے۔ ایسے میں اضافی ٹیکسوں اور مہنگائی کی شرح میں اضافے کی وجہ سے اس طبقے کی قوت خرید کم سے کم ہوتی جائے گی اور آخرکا ر اس کا نتیجہ معاشی سرگرمیوں میں کمی کی صورت میں پوری معیشت کو بھگتنا پڑے گا۔ علاوہ ازیں کم ہوتی قوت خرید کی وجہ سےمتوسط طبقہ خوراک ، صحت اور تعلیم پر بھی کم خرچ کرے گا جس کی وجہ سے ان شعبوں میں ریاست پر بوجھ مزید بڑھ جائے گا اور ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان مزید نیچے چلا جائے گا۔ واضح رہے کہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی میں متوسط طبقے کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اسی طبقے کو یکسر نظر انداز کر کے موجود ہ حکومت نے معیشت کو مزید کمزور کرنے کی بنیاد رکھ دی ہے۔ حکومت کے پاس اب بھی موقع ہے کہ اس حوالے سے بجٹ پر نظر ثانی کر ے تاکہ متوسط طبقے کی قوت خرید کو قائم رکھ کر ترقی کی شرح کو دوبارہ نیچے جانے سے روکا جا سکے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین