• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن (نیٹو) دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ اور روس کے درمیان شروع ہونے والی سرد جنگ کے آغاز یعنی 1949 میں اپنے رکن ممالک کے مشترکہ دفاع کیلئے بطور سیاسی اور فوجی اتحاد کے طور پر قائم کیا گیا۔ نیٹو ’’شمالی اٹلانٹک کے علاقے میں استحکام اور بہبود‘‘ کو فروغ دے کر رکن ممالک کی ’’آزادی ، مشترکہ ورثے اور تہذیب کی حفاظت‘‘ کرنا اور نیٹو کے کسی ایک رکن ملک پر حملے کو سب رکن ممالک پر حملہ تصور کرنے اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کیلئے وجود میں آیا ہے۔ ترکی ان پانچ یورپی نیٹو رکن ممالک میں سے ایک ہے جس کی سرزمین پر امریکی ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔

نیٹو کے 30 رکن ممالک ہیں جن کو مختلف ادوار میں رکنیت عطا کی گئی ترکی اور یونان 1952ء اور مغربی جرمنی 1955ء میں نیٹو میں شامل کئے گئے لیکن 1974ء میں ترکی کی جانب سے قبرص میں فوجی کارروائی کرنے اور نیٹو کی جانب سے ترکی کو نہ روکنے کی وجہ سے یونان نے یکطرفہ طور پر نیٹو کی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ 1976ء میں یونان کو اپنی غلطی کا احساس ہونے پر اس نے ایک بار پھر نیٹو کی رکنیت کےلئے رجوع کیا لیکن اس بار ترکی نے یونان کے خلاف ویٹو کرتے ہوئے اس کی رکنیت بحال کرنے کی راہ مسدود کردی ۔تاہم 1980ءکے فوجی انقلاب کےکرتا دھرتا جنرل کنعان ایورن نے امریکی دباو کم کرنے کی خاطر اکتوبر1980ء میں بلا شرط یونان کی رکنیت کی بحالی کی اجازت دے دی جو شاید ترکی کی سب سے بڑی غلطی تھی، جس کا پچھتاوا آج بھی ترکی محسوس کرتا ہے۔

ترکی نے اس بار ماضی کی غلطی سے سبق حاصل کرتے ہوئے میڈرڈ میں ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس سے قبل نیٹو کی رکنیت کے خواہاں فن لینڈ اور سویڈن کی رکنیت کی مخالفت کرنے اور اس کیلئے ویٹو کا حق استعمال کرنے کا برملا اظہار کردیا تھا اور کہا تھا کہ دونوں ممالک ترکی کو قائل کرنے کیلئے اپنے وفود ترکی بھیجنے کا تکلف نہ کریں۔ترکی کوان دونوں ممالک کی جانب سے دہشت گردوں کو پناہ دینے ، مالی معانت کرنے اور ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی میں استعمال ہونے والے اسلحے پر ترکی پر پابندی لگانے کی وجہ سے شدید غصہ تھا اور یہ ترکی کے لئے سنہری موقع تھا کہ وہ ان دونوں ممالک پر ہی نہیں بلکہ امریکہ پر بھی شدید دباو ڈالتے ہوئے اپنی باتیں منواتا جس پر امریکہ اور یہ دونوں ممالک اس سے قبل کان بھی نہیں دھرتے تھے۔ صدر ایردوان نے پریس کانفرنس میں سویڈن اور فن لینڈ کو دہشت گردوں کی نرسریاں قرار دیا اوران کی نیٹو کی رکنیت کو ویٹو کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے اپنے موقف سے پیچھے نہ ہٹنے کا اعلان کر دیا ۔ نیٹو سربراہی اجلاس سے ترکی کے مطالبات کا جائزہ لینے اور ترکی کی شکایات کو دور کرنے کیلئے چار فریقی سربراہی اجلاس منعقد کیا گیا۔ اس چار فریقی سربراہی اجلاس میں صدر رجب طیب ایردوان، فن لینڈ کے صدر ساؤلی نینیستو اور سویڈش وزیر اعظم مگدالینا اینڈرسن کے علاوہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل ہینز اسٹولٹنبرگ نے شرکت کی ۔ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے اس اجلاس میں تینوں ممالک نے سہ فریقی یادداشت پر ترک وزیر خارجہ میولود چاوش اولو، فن لینڈ کے وزیر خارجہ اور سویڈش وزیر خارجہ Ann Linde نے دستخط کئے۔جس کے تحت ترکی کے تمام مطالبات کو تسلیم کرلیا گیا اور ترکی کو یونان کو بلاشرط نیٹو کی رکنیت کی اجازت دینے کا جو پچھتاوا تھا آخر کار اس کا ازالہ ہو گیا۔مندرجہ ذیل نکات ترکی کی فتح کی عکاسی کرتے ہیں اور صدر ایردوان لازمی طور پر اپنی اس عظیم فتح کو انتخابات سے قبل کیش کروانے کی کوشش کریں گے تاکہ اپنی مقبولیت کو ایک بار پھر بلندیوں پر لے جائیں۔یہ نکات کچھ یوں ہیں ’’ نیٹو اتحاد کے بنیادی عناصر میں سے ایک دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے خواہ اس کی شکل کیسی ہی کیوں نہ ہو،تمام ارکان ایک دوسرے سے مکمل یکجہتی اور تعاون کریں گے... فن لینڈ اور سویڈن، ترکی کی قومی سلامتی کو لاحق تمام خطرات کے خلاف ترکی سے بھرپور تعاون کریں گے... فن لینڈ اور سویڈن پی وائی ڈی/وائی پی جی اور فیتو کی مالی معاونت اور پشت پناہی نہیں کریں گے... دونوں ممالک دہشت گردی کی تمام اقسام کی مذمت کرتے اور اسے مسترد کرتے ہیں... دونوں ممالک پی کے کے کو کالعدم دہشت گرد قرار دیتے ہیں اور اس کے تمام ونگز اور اس کے سرغنہ افراد کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کی یقین دہانی کرواتے ہیں...تینوں ممالک دہشت گردی کی روک تھام کیلئے ایک دوسرے سے مکمل تعاون کریں گے... سویڈن کا دہشت گردی کے جرائم کا نیا قانون یکم جولائی سے نافذ العمل ہوگا... تینوں ممالک نے آپس میں اسلحے کی ترسیل کی کسی قسم کی کوئی پابندی نہ لگانے کا فیصلہ کیا ہے...دونوں ممالک یورپی کنونشن کے مطابق معلومات، شواہد اور انٹیلی جنس کوترکی کیساتھ شئیر کرینگے اور دہشت گرد مشتبہ افرادکو ترکی کے حوالے کرنے کی درخواستوں پر کارروائی کرینگے ... دونوں ممالک دہشت گرد تنظیم پی کے کے اور اس کے تمام ونگز کی فنڈ ریزنگ اور بھرتی کی سرگرمیوں پر پابندی عائد کریں گے...تینوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے ایک مشترکہ سکیورٹی معاہدے پر دستخط کئے اور اس طرح ترکی کے خدشات کو دور کردیا گیا ہے۔ ترک صدر رجب طیب ایردوان نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انھیں سویڈن اور فن لینڈ سے ’’جو چاہئے تھا وہ مل گیا ہے۔‘‘

تازہ ترین