• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائنس، ٹیکنالوجی، صنعت اور تجارت کی تیز رفتار ترقی نے انسانی طرز زندگی میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ انسان نے زندگی کے بہت سے شعبوں میں ناقابلِ تصور کامیابیاں حاصل کی ہیں اور اب مریخ پر کالونیاں قائم کرنے کو تیار ہے۔ انٹرنیٹ کے باعث سیل فون پر ایک کلک پربیشتر معلومات قابلِ رسائی ہیں۔ سپر کمپیوٹر اب ایک سیکنڈ میں ہزار انسانی دماغوں کا کام کر رہے ہیں۔ انسان مصنوعی ذہانت کی تخلیق اور موت و حیات کے رازوں سے پردہ اٹھانےتک آن پہنچا ہے۔ طبی اور جینیاتی تحقیق کی بدولت تحقیقی کورونا ویکسین تیار کرنے میں ایک سال سے بھی کم وقت لگا ۔ اس تمام تر ترقی کے باوجود، فطرت کے قوانین آج بھی مسلمہ حقیقت ہیں۔ اس ترقی کی قیمت بعض اوقات توقع سے بھی کہیں بڑھ کر ثابت ہوتی ہے۔ کرۂ ارض کی تباہی، گلوبل وارمنگ کے اثرات، جنگیں، آلودگی، درختوں کی کٹائی اور جس ہوا میں ہم سانس لیتے ہیں اسے تباہ کرنا،یہ وہ قیمت ہے جو ہم نے متوازن اور خوشگوار زندگی کے حصول کے لیے ادا کی ہے۔

انسان مجموعی طور پر مگر اپنا توازن کھو چکا ہے۔ سائنس، ٹیکنالوجی اور کنزیومرازم نے انسانی ذہن پرسبقت حاصل کر لی ہے۔ سیل فونز، سپر کمپیوٹرز اور دیگر تمام الیکٹرانک گیجٹس نے شاید ہمیں زیادہ موثر اور اسمارٹ بنا دیا ہے لیکن انہوں نے ہماری چھوٹی چھوٹی خوشیوں کوشدید متاثر کیا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں امیر اور غریب میں پہلے سے کہیں زیادہ ناخوشی، پریشانی، ڈپریشن اور خودکشی کے رجحانات فروغ پا رہے ہیں۔ زندگی کی تیز رفتار، مسابقت اور مزید ترقی کے لیے مسلسل جدوجہد، انسانی ذہن سے مطابقت نہیں رکھتی۔ یہ انسانی زندگی کے تینوں بنیادی شعبوں، دماغ، جسم اور روح کے ساتھ کھلواڑ کے مترادف ہے۔ متوازن اور خوشگوار زندگی گزارنے کی اگر خواہش ہے توان تینوں کو الگ الگ دیکھنا پڑے گا۔

تناؤ، اضطراب اور ڈپریشن یا کسی طرح کے دباؤ میں آپ کا دماغ ہی جسم کے خلاف کام شروع کر دیتا ہے۔ ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ دل کی بیماریاں، ذیابیطیس، گردوں کی خرابی، ڈیمنشیا اور بہت سی دیگر بیماریوں میں سے تقریباً اسی فیصد بیماریاں دباؤ والی زندگی گزارنے کا نتیجہ ہیں۔ خوشگوار زندگی کیلئےیہ سمجھنا چاہئے کہ انسانی جسم متوازن صحت مند خوراک، ورزش، اچھی نیند اور مثبت خیالات کے علاوہ اورکچھ نہیں مانگتا، جو خوشی اور مسرت کے حصول کے لیے بنیادی عناصر ہیں۔

ایک اور عنصر جو لاکھوں لوگوں کی ناخوشگوارزندگی کا باعث ہے وہ عجلت، مسابقت اور امیر بننے کی دوڑ ہے۔ جدید دور کا کلچر، کارپوریٹ ترقی، بھاری معاوضوں کی حامل نوکریاں اور کرۂ ارض کی معیشتوں کی حالت لوگوں کو غیر صحت بخش معمولات اپنانے پر مجبور کر رہی ہیں اور وہ یہ بھول رہے ہیں کہ انسانی جسم ایک ایسی مشین ہے جسے ورزش اور قاعدے کی ضرورت ہے۔اس کے بعد ذہن کی باری آتی ہے۔ بہت سے اسکالرز کی نظر میں، ہمارے سیارے پر بسنے والے جانور متوازن زندگی گزارتے ہیں۔ وہ فطرت کے مطابق کھاتے، پیتے، سوتے، افزائشِ نسل کرتے اورفناہوتے ہیں۔ بنی نوع انسان ایک پیچیدہ ذہن رکھنے کی بدولت وجود کے تصور کو الجھانے میں کامیاب رہاہے۔ زندگی ایک نعمت ہے اور ہر مخلوق کو ماحولیاتی نظام میں اپنی جگہ کا احساس ہونا چاہئے۔ اس کے باوجود، انسانوں میں غیر ضروری خیالات سے اپنے وجود کے توازن کو بگاڑنے کا رجحان ہے۔ یہ خیالات جو انسان کے ذہن پر مسلسل بمباری کرتے رہتے ہیں زیادہ تر منفی نوعیت کے ہوتے ہیں۔ خوف اور فکر ان دنوں انسانوں میں سب سے زیادہ ہےاور یہی خوف بہت سی بیماریوں اور برائیوں کا سبب ہے۔ جب خیالات کی حفاظت نہیں کی جاتی تو وہ منفی جذبات بن جاتے ہیں۔ ان میں تنازعات، تناؤ، نفرت، حسد، لالچ، اداسی، جہالت وغیرہ شامل ہیں۔ جب ان منفی جذبات کو چیک نہیں کیا جاتا تو یہ منفی اعمال میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور یہی دنیا میں بگاڑ کا باعث ہیں۔ لوگ یا تو ماضی میں جی رہے ہیں یا مستقبل میں۔

خوشی اور توازن انسان کی زندگی کا آخری مقصد ہونا چاہئے۔ تمام ممتازاسکالرز اور مذہبی رہنماؤں نے اعتدال کا درس دیا ہے۔ موجودہ دور کی ٹیکنالوجی ،جلد بازی اور متفکر فطرت نے ہمیں سکھایا ہے کہ توازن اور خوشی بیرونی ماحول میں ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ خوشی اور توازن اندر سےنمودار ہوتا ہے۔ دنیا کو ٹھیک کرنے سے پہلے ہمیں اپنے دماغ ، جسم اور روح کو ٹھیک کرنا چاہیے۔ اندرونی توازن اور مسرت تلاش کرنے کے بعد ہی انسان کو اس نعمت کا احساس ہو سکتا ہے جسے زندگی کہتے ہیں۔ دنیا کی تمام برائیاں عدم توازن کا نتیجہ ہیں۔ یہ عدم توازن لالچ، نفرت، خوف اور الجھن سے پیدا ہوتا ہے۔ جب کہ جدید دور کا مقولہ ہے، ’’لا علمی بھی ایک نعمت ہے‘‘، یہ حقیقی خوشی کی تلاش اور حصول کے حوالے سے حتمی المیہ ہے۔

(مصنف جناح رفیع فائونڈیشن کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین