• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فریضہ حج کی ادائیگی اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم ترین رکن ہے۔جو ہر صاحب استطاعت مسلمان پر فرض ہے۔ حج کا اجتماع اہل حجاز کیلئے ایک بہت بڑی تقریب کی حیثیت رکھتا ہے۔حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے زمانے سے لے کر دور ِرسالت ﷺتک ہر دور میں کسی نہ کسی صورت میں حج کی ادائیگی کی جاتی رہی۔رحمت عالمﷺ نے اسلام کے اساسی قواعد حج کے موقع پر اپنے خطبہ میں ارشاد فرمائے جو رہتی دنیا تک ہم سب کیلئےمشعلِ راہ رہیں گے۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حج کے انتظامات میں بھی تبدیلی اور ترقی دیکھی جاتی رہی۔ابتدائی زمانے کے حجاج کی مشکلات کے واقعات سنیں تو آج کے دور کا حج اس کے مقابلے میں کئی گنا آسان اور باعث راحت سفر محسوس ہوتا ہے۔پوری دنیا میں یہ اپنی نوعیت کا واحد اجتماع ہے جس میں ایک ہی وقت میں لاکھوں کی تعداد میں افراد ایک ہی شہر اور ایک ہی علاقے میں جمع ہوتے اور مخصوص مناسک ادا کرتے ہیں۔سعودی عرب کی حکومت حجاج کرام کی مہمان نوازی کیلئےہر سال مثالی انتظامات کرتی ہے۔حرم کی توسیع کے معاملے پر سعودی حکمرانوں کو خراج تحسین پیش نہ کرنا بھی زیادتی ہوگی۔شاہ فہد بن عبدالعزیز نے حرم کی توسیع کا کام شروع کیا۔جس کو بعد میں آنے والے ہر حکمراں نے جاری رکھا۔سعودی عرب کے موجودہ بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح حج انتظامات کو مثالی بنانے کیلئے متعدد اقدامات کئے۔کورونا وبا سے قبل 2019میں مناسک حج ادا کرنے والے خوش نصیب مسلمانوں کی تعداد 26لاکھ تھی۔کورونا کے بعد اس سال حج میں مکہ و مدینہ میں عازمین کی روایتی رونق دیکھی گئی۔ دنیا بھر سے تقریباً دس لاکھ حاجیوں نے حج کی سعادت حاصل کی جو کورونا کی وبا سے قبل حج کرنیوالوں کی تعداد کے مقابلے میں نصف ہے۔امسال حج میں شرکت کرنے والے 10 لاکھ افراد میں سے آٹھ لاکھ 50 ہزار کا تعلق بیرون سعودی عرب سے تھا۔کورونا کے دوران سفری پابندیوں اور مشکلات کی وجہ سے دو سال انتہائی محدود تعداد میں حج منعقد ہوا۔ 2021 میں صرف چند ہزار لوگوں کو حج کرنے کی اجازت دی گئی جب کہ اس سے ایک سال پہلے صرف ایک ہزارافراد نے حج کی سعادت حاصل کی تھی۔سعودی حکومت نے 2سالہ کورونا پابندیوں کے بعد سال 2022میں عازمین حج کے کوٹے میں اضافہ کیا۔

عازمین حج کیلئےسعودی عرب کے مختلف ہوائی اڈوں پر امیگریشن کے اعلیٰ انتظامات کئے گئے۔حجاج کرام کے مطابق پہلے جس عمل میں کئی گھنٹے صرف ہوتے تھے اب وہ کام بڑی سرعت کے ساتھ سرانجام دیا گیا۔روڈ ٹو مکہ پروجیکٹ کے تحت اسلام آباد ایئرپورٹ سے جانے والے حجاج کی امیگریشن اسلام آباد میں ہی کردی گئی۔توقع ہے کہ آئندہ کراچی ،کوئٹہ اور پشاور کے ائیرپورٹ بھی روڈ ٹو مکہ پروجیکٹ کا حصہ بن جائیں گے۔

سیکورٹی کے حوالے سے بھی سعودی حکومت نے مثالی اقدامات کئے۔بری افواج کو مختلف علاقوں میں تعینات کیا گیا تاکہ ہجوم کے انتظام اور مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کے صحن میں حجاج کی نقل و حرکت کو منظم رکھنےمیں وزارت داخلہ کی مدد کی جا سکے۔ وزارت دفاع نے حجاج کرام کے قیام اور آمد ورفت کے راستوں کی صفائی، خطرناک مواد کا پتہ لگانے اور حج کے دوران گڑ بڑ پیداکرنے کی کوششوں کا تدارک کرنے میں پولیس کی مدد کی۔سعودی عرب کی رائل ایئر فورس نےہوائی اڈوں پر سیکورٹی اور تحفظ کی متعدد ذمہ داریاں سرانجام دیں۔ ہوائی اڈوں پر خطرناک مواد کا پتہ لگانے کے لئےتکنیکی ماہرین کے ساتھ ایئر پورٹس پر چیکنگ کا عمل مسلسل جاری رہا۔ مقدس مقامات پر ایئر فورس حج انتظامات کی فضائی نگرانی کرتی رہی۔حرمین شریفین کے سربراہ الشیخ ڈاکٹر عبدالرحمٰن بن عبدالعزیز السدیس نے ’پرنس محمد بن سلمان کی ہدایت پر ماحولیاتی تحفظ اور وبائی امراض کی روک تھام کیلئے ایک الگ محکمہ قائم کیا ۔حج کے دوران ماحولیاتی آلودگی کی روک تھام اور اسکے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لئے 650 سے زیادہ کارکنان اور 100 سعودی ملازمین دن رات مصروف عمل رہے۔ایک سال کے دوران مسجد حرام اور اس سے ملحقہ علاقوں کو جراثیم سےپاک کرنے کا آپریشنز 24 گھنٹے جاری رہا اور یہ عمل حج کے اختتام اور حجاج کرام کی واپسی تک جاری رہے گا۔مسجد حرام کے اندر کے پاکیزہ ماحول کو مزید صاف اور حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق برقرار رکھنے کیلئے 1300 آلات اور جراثیم کشی کے 650وبائل پمپ فراہم کئےگئےتاکہ مسجد کی سطح، قالینوں، اندرونی مقامات اور مسجد کے صحن کوجراثیم سے پاک رکھا جا سکے۔ماحولیا تی تحفظ کیلئے خصوصی طور پر روبوٹ تیار کئے گئے جو مصنوعی ذہانت کے ساتھ کام کرتے ہیں۔آب ِزم زم فراہم کرنے والے ادارے نے بھی جدید ٹیکنالوجی استعمال کی اور حرم پاک کے اندر حجاج کو آب زم زم کی فراہمی کا سلسلہ بلا تعطل جاری رہا۔المختصر،۔ایئرپورٹ پر امیگریشن کا معاملہ ہو یا مسجد حرام میں حجاج کرام کی آمد کا،عرفات اور منیٰ میں حجاج کرام کا قیام ہو یا جمرات پر شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل، طواف وداع ہو یا جانوروں کی قربانی ہر مرحلہ پر حسنِ انتظام کی مثالیں جا بجا موجود تھیں۔پاکستانی حجاج کیلئے انتظامات کی نگرانی پاکستان میں سعودی سفیر جناب نواف سعید المالکی نے خصوصی طور پر کی۔وہ حکومت پاکستان اور حکومت سعودی عرب کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہےاور جہاں ضرورت پیش آئی انہوں نے ذاتی طور پر کردار ادا کرکے پاکستانیوں کو سہولتیں فراہم کیں۔

تازہ ترین