• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپدیشوں ، نصیحتوں، لیکچروں، تلقینوں اور سرزنشوں کا سلسلہ تب جاکر ختم ہوتا ہے جب ہم ختم ہوجاتے ہیں۔ یعنی اس دنیا سے کوچ کرجاتے ہیں۔ سیانے فرماتے ہیں کہ یہ دنیا ایک اسٹیج ہے۔ اسٹیج پر اپنی کارکردگی دکھانے کے بعد ہم ہمیشہ کے لئے اسٹیج چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ تنبیہوں اور تلقینوں کا سلسلہ تب شروع ہوتا ہے جب ہم مابدولت اس دنیا میں تشریف لے آتے ہیں۔ کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی، بس محسوس ہوتا ہے کہ فقیر کے کوچ کرنے کا وقت قریب ہے، بلکہ عنقریب ہے۔اس لئے نصیحتوں، تنبیہوں اور تلقینوں کا جو بوجھ والدین، اساتذہ ،سیانوں، دانشوروں، ہمددروں اور مفت میں مشورے دینے والوں نے میرے ناتواں کندھوں پہ ڈال دیا ہے، وہ بوجھ میں اسی دنیا میں چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں۔ یہ وہ بوجھ ہے جو کوڑے کرکٹ اور بند برساتی نالوں میں ڈالا نہیں جاتا۔یہ بوجھ کسی نہ کسی کے کندھوں پر ڈالا جاتا ہے۔ مجھے آپ کے کندھے دکھائی دے رہے ہیں۔گاہے گاہے، تھوڑا تھوڑا کرکے یہ بوجھ میں آپ کے کندھوں پر ڈالتا رہوں گا۔ اسلئے پیشگی معافی کا طلبگار ہوں۔

یہ قطعی ضروری نہیں ہوتا کہ جو تلقین ،نصیحتیں اور مشورے آپ سنیں، ان پر بغیر سوچے سمجھے اعتبار کرلیں،اور آنکھیں بند کرکے عمل پیرا ہوں۔ اس لئے جو نصیحتیں اور تلقینیں میں آپ کی طرف ٹرانسفر کررہاہوں،ان پر غور کریں۔ بات سمجھ میں آئے تو اپنالیں۔بات سمجھ میں نہ آئے توBye Byeیعنی خدا حافظ کہہ دیں اور قیمتی مشورے کوذہن کے کسی کونے کھدرے میں رکھ کربھول جائیں۔

لڑکپن کازمانہ تھا۔مشورہ ملا کہ بیٹے اگر زندگی کو سہل دیکھنا چاہتے ہو تو پھر برے لوگوں کی صحبت سے بچتے رہو۔مشورہ مجھے اچھا لگا تھا۔ مگر مسئلہ یہ تھاکہ پتہ کیسے چلے کہ کون اچھا ہے اور کون برا ؟۔ مجھے جہاں تک یادپڑتا ہے، انسان کے بارے میں لاکھوں سال پرانی تاریخ میں کبھی کوئی ایسا دور نہیں آیا تھا جب نوزائیدہ کی پیشانی پر لکھا ہوتا کہ یہ اچھا بچہ ہے اور یہ بچہ برا بچہ ہے۔

مجھے یقین ہے کہ ایسا دور کبھی نہیں آیا تھا ۔مگر اچانک میری ملاقات ایسے ایک دانشور سے ہوئی جو جہاں دیدہ تھے اور جہاں ساز بھی تھے۔ جہاں ساز درویش نے فرمایا۔’’ بیٹے یہ دنیا ایک دھوکا ہے۔یہ دنیا ایک طلسم ہے۔آپ کو جکڑ لیتی ہے۔ جب تک ثابت نہ ہوجائے وہ شخص، وہ آدمی اچھا آدمی ہے تب تک وہ شخص برا شخص کہلوائے گا۔ جہاں ساز دانشور نے میرے چودہ طبق روشن کردیے۔ اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے ہرشخص مجھے برا بلکہ بہت برا لگنے لگا۔ مجھے لگتا تھا دکاندار مجھے لوٹ لیں گے۔ ٹیکسی ڈرائیور مجھ سے دس گنا کرایا بٹور لےگا۔فٹ پاتھ پر سامنے سے آتا ہوا ہر شخص مجھے جیب کترا لگتا تھاگلی سے تنہا گزرتے ہوئے اچانک نمودار ہونے والا شخص لگتا تھا مجھے خنجر کی نوک پر لوٹ لے گا۔ میرا پرس، میرا موبائل فون چھین لے گا۔ ہر پولیس والا مجھے غنڈا لگتا تھا۔ اس قدر ڈرائونی باتیں بھیجے میں آنے کے بعد میں نے فٹ پاتھ پرچلنا چھوڑ دیا۔ میں فٹ پاتھ کے قریب سڑک کے کنارے چلنے لگتا۔ ایک روز ایک تیز رفتار گاڑی نے ٹکر ماردی اور اڑتا بنا۔ یہ جو میں آپ کو لنگڑاتےہوئے چلتا دکھائی دیتا ہوں، دراصل اس بدقسمت حادثے کی نشانی ہے۔

ٹانگ کی ہڈی چکنا چور ہوجانے کے بعد ڈاکٹر نے بلکہ سرجن نے میری ٹانگ میں لوہے کی راڈ لگا دی۔ اسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے مجھے جہاں ساز اور جہاں دیدہ دانشور کی باتیں، ان کی نصیحتیں یاد آتی رہتی تھیں۔ خاص طور پر ان کی ایک تنبیہ نے مجھے ضرورت سے زیادہ چوکنا کردیا تھا۔ سرجن مجھےراکھشس اور نرسیں مجھے چڑیلیں لگتی تھیں۔ ایک چڑیل مجھے بہت اچھی لگتی تھی۔ مجھے لگتا تھا، میں خوبصورت چڑیل کے ہاتھوں ہنسی خوشی جان دے دوں گا۔ مرنے کی بجائے کچھ دنوں بعد سرجن نے مجھے اسپتال سے جانے کی اجازت دے دی۔ کچھ عرصہ بعد میں روزی روٹی کمانےکے کام میں لگ گیا۔ تب، جہاں ساز اور جہاں دیدہ دانشور کے مشورے ذہن میں گونجتے رہتے تھے۔ ’’ یہ دنیا دھوکا ہے، فریب ہے، طلسم ہے۔‘‘ میں وہموں اور وسوسوں میں زندگی گزارنے لگا۔ مجھے لگتا تھا کہ راکھشس سرجن نے اسٹیل کی بجائے زنگ آلود لوہے کی راڈ میری ٹانگ میں لگادی تھی۔ زہر کی طرح زنگ آلود لوہے کا زنگ میرے جسم میں سرایت کر جائے گا۔

دو مشورے آپ نے سن لئے ہیں۔ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی اپنے شعور کے مطابق گزاریں یا پھر میری طرح ڈرتے ڈرتے وہموں میں گھری ہوئی زندگی گزاریں، اور یقین کرلیں کہ یہ دنیا سراب ہے ،دھوکا ہے ، فریب ہے۔ یہ دنیا عارضی ہے۔ اس دنیا سے دل نہیں لگانا ہے۔

تازہ ترین