• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی تاریخ میں جمہوریت اور عوامی حاکمیّت کیلئےجدو جہد قیام ِ پاکستان کے فوراََ بعد ہی شروع ہو گئی تھی ،جو آج تک جاری ہے ۔ قیامِ پاکستان کے وقت نہ صرف ملک نیاتھا بلکہ اس کے سیاستدان اور سیاسی جماعتیں بھی نوزائیدہ اور نا پختہ تھیں۔ ایسے میں متحدہ ہندوستان سے پاکستان کے حصّے میں آنے والی بیوروکریسی اور فوجی اشرافیہ ہی تجربہ کار ادارے تھے۔جنہوں نے نا تجربہ کا ر سیاسی قیادت اور کمزور سیاسی جماعتوں کی فطری خامیوں سے فائدہ اٹھا کر اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ یوں پاکستان سیاسی استحکام کی بجائے سیاسی انتشار کا شکار ہو گیا اور معاشی ترقی کی جانب سفر کرنے کی بجائے تقسیم اور معاشی دیوالیہ پن کی راہ پر چل پڑا۔ 71ء میں دو لخت ہونے کے بعد آج کل معاشی ابتری بھی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ عوامی حاکمیت اور جمہوریت کی اس جنگ میں محترمہ فاطمہ جناح ، خواجہ ناظم الدّین ، حسین شہید سہروردی ، فیروز خان نون اور ان جیسے کئی زعما نے بڑھ چڑھ کر حِصّہ لیا۔ مگر جو کردار ذوالفقار علی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے ادا کیا ، اسے تاریخ کبھی فراموش نہیں کر سکتی ۔ 5جولائی 1977کو جب ایک ڈکٹیٹر نے عوامی حکومت کا تختہ اُلٹا تو اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو کی عمر صرف 24برس تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد وہ پاکستان کی فارن سروس جوائن کرنا چاہتی تھیں جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ’’ دُختر ِ مشرق‘‘ میں بھی کیا ہے۔ بقول ان کے ، ان کا عملی سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن ان کے مقدر میں کانٹوں بھرا ایسا راستہ تھا، جس کا کوئی تصّور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ انہوں نے جس بہادری سے وقت کے ظالم اور جابر حکمراں کا مقابلہ کیا۔ اس کی مثال دنیا کی سیاسی تاریخ میںبہت کم ملتی ہے۔ مردوں کے غلبے والے معاشرے میں ایک خاتون ہونے کے باوجود ، ان کی جرا ت اور شجاعت نے طاقت کے نشے میں چُور حکمرانوں کے عزائم کو خاک میں ملا دیا۔ انکی اس جرا ت ِ رندانہ کو حبیب جالب نے ان الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کیا کہ’’ ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے۔‘‘ اس بظاہر کمزور اور نہتی لڑکی نے نہ صرف اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی اسیری کے ڈھائی سال کے دوران پیش آنے والے خوفناک حالات کا مقابلہ کیا اور اپنی والدہ محترمہ نصرت بھٹو کے ہمراہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں بلکہ اپنے والد کے عدالتی قتل کے بعد انہیں اور ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کو بھٹو شہید کی میّت کا آخری دیدار کرنے کی اجازت بھی نہ دی گئی۔ اسے قدرت کا انصاف کہئے یا مکافات ِ عمل کہ بھٹو شہید کے قاتل کا خاندان بھی اسکے آخری دیدار سے محروم ہی رہا ۔

صرف یہی نہیں محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے باپ کے بعد اپنے جواں سال بھائیوں کی شہادتوں کے صدمے بھی نہایت حوصلے اور بہادری سے برداشت کئے۔ اس دوران وہ جلاوطنی کے عذاب بھی سہتی رہیں لیکن انہوں نے کسی مرحلے پر اپنے بہادر باپ اور بھائیوں کی طرح نہ تو معافی مانگی اور نہ ہی پر امن جمہوری جدو جہد کو خیرباد کہا۔ اس دوران انکی پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو قید و بند اور کوڑوں کی سزائیں دی گئیں۔ کئی ایک کو تختہ ء دار پر لٹکا دیا گیا۔ پارٹی کو توڑنے کی کوششیں کی گئیں۔ لیکن عوام کی بے پایاں محبت نے یہ سب کوششیں رائیگاں کردیں اور بے نظیر چاروں صوبوں کی زنجیر کا نعرہ ہر طرف گونجنے لگا۔ پھر جب گیارہ سال کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کے بعد ملک میں جمہوریت کے نام پر انتخابات ہوئے تو محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی زندگی کا ایک اور کٹھن دور شروع ہوگیا۔ ڈکٹیٹر کی باقیات نے باقاعدہ ایک منصوبہ بندی کے تحت انتخابات میں کھلی دھاندلی کے طور پر راتوں رات آئی جے آئی کی تشکیل کی تاکہ انہیں اقتدار میں آنے سے روکا جا سکے۔ وہ انہیں اقتدار میں آنے سے تو نہ روک سکے البتّہ انہیں واضح اکثریت نہ لینے دی گئی اور ان کے ہاتھ پائوں باندھ کر انہیں اقتدار دیا گیا۔ جسے صرف ڈیڑھ سال کے عرصے میں ختم بھی کردیا گیا۔ اس کے بعد جدوجہد کا ایک نیا دور شروع ہوگیا۔ جس میں ان کے شوہر آصف علی زرداری کو تقریباََ گیارہ سال تک پابندِ سلاسل رکھا گیا۔جبکہ ان کے خلاف ایک مقدمہ بھی ثابت نہ کیا جا سکا۔

محترمہ اپنے بچوں کو ان کے والد سے ملوانے جیلوں کے چکّر لگاتی رہیں۔ آج جب عمران خان اپنی بائیس سالہ جدوجہد کا ذکر کرتے ہیں تو ہنسی آتی ہے۔ انہوں نے تو آج تک ایک رات بھی جیل میں نہیں کاٹی اور نہ ہی اپنے کسی پیارے کی قربانی دی ہے ۔ وہ کیا جانیں کہ سیاسی جدوجہد کیا ہوتی ہے۔ انہیںتو اقتدار پلیٹ میں رکھ کرپیش کیا گیا تھا۔ اسی لئے تو وہ اقتدار کی تڑپ میں حواس کھو بیٹھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے نہ صرف اس قوم کو متفقہ آئین ، ایٹمی پروگرام اور میزائل پروگرام دئیے بلکہ وہ سیاسی شعور بھی بخشا جو آج بھی آمروں کے پائوں کی زنجیر بنا ہوا ہے ۔ لیکن وطن کو توڑنے کی کبھی بات نہیں کی۔ بے نظیر بھٹو کی جدو جہد آج بھی چاروں صوبوں کی زنجیر ہے۔

تازہ ترین