• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اللہ کے آخری نبی محمد مصطفٰیﷺ نے ایک نہایت ہی اثر انگیز حدیث میں فرمایا کہ مسلمانوں کی مثال ایک بدن جیسی ہے کہ جب اس کا کوئی ایک عضو درد میں مبتلا ہوتا ہے تو سارا جسم کرب کی شدت سے تڑپتا ہے۔ جب پاکستانی قوم کو بتایا گیا کہ منگل کے روز لندن میں میاں نواز شریف کے دل کا ایک پیچیدہ آپریشن ہوگا تو اپوزیشن کے شعلہ نوا سیاست دانوں سمیت ہر کسی نے بڑی تشویش کا اظہار کیا، درد کی شدت کو محسوس کیا اور میاں نواز شریف کی جلد صحت یابی کیلئے صدق دل سے دعا کی۔ ہم نے بھی دل کی گہرائی سے میاں صاحب کی صحت یابی اور جلد وطن واپسی کیلئے دعا کی ہے۔ اگرچہ ساری قوم میاں نواز شریف کی صحت یابی کیلئے دعاگو ہے تاہم اب ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو علاج کیلئے تڑپنے اور ترسنے والے لاکھوں مریضوں کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے۔ آج ہی ٹیلی وژن اسکرین پر میں نے دل دہلا دینے والا منظر دیکھا۔ فیصل آباد کے ایک سرکاری اسپتال کے باہر پچاس ساٹھ فی صد جلے جسم والا مریض بچہ درد کی شدت سے تڑپ رہا تھا۔ برن سینٹر تو دور کی بات اس بچے کو جھلسے بدن کے ساتھ 45درجے سینٹی گریڈ میں وارڈ کا سایہ بھی میسر نہ تھا۔ بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنے ہوئے بچے کے والدین آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعا کررہے تھے۔ اے اللہ! میاں نواز شریف کو صحت یاب کر اور میرے بچے کو بھی شفاء دے۔ بے بس ماں اور باپ کے کرب کا اندازہ لگانے کیلئے زیادہ علم اور فلسفے کی ضرورت نہیں۔ سرکاری اسپتالوں کی حالت زار کس سے چھپی ہے۔ ان اسپتالوں کے اندر اور باہر علاج کو ترسنے والے مریضوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچی ہوئی ہے۔
چند روز پہلے امریکہ سے میرے بیٹے نے بتایا کہ ایک پاکستانی امریکی مسیحا بے سہارا لوگوں کیلئے وطن عزیز میں بین الاقوامی معیار کے علاج کو یقینی بنائے گا تو مجھے یقین نہ آیا۔ تاہم ابھی تین چار روز پہلے لاہور میں پروفیسر ڈاکٹر سعید اختر سے دو تین گھنٹے کئی دوستوں کے ساتھ ہارٹ ٹو ہارٹ بات چیت کا موقع ملا تو مجھے نہ صرف اپنے بیٹے کی بات پر حق الیقین حاصل ہوا بلکہ میرے دل نے گواہی دی کہ ڈاکٹر صاحب کی مسیحائی سے غریب مریضوں کے دکھوں کا مداوا ہوگا اور انہیں بھی وہی علاج ملے گا جو وی وی آئی پی امیروں کو ملتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے 1980ء کی دہائی میں سندھ میڈیکل کالج میں پہلی پوزیشن لی اور گولڈ میڈل حاصل کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی قابلیت کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے زمانہ طالب علمی میں ہی امریکہ کا امتحان پاس کرلیا تھا۔ آغا خان اسپتال نے ڈاکٹر سعید اختر کی قابلیت اور صلاحیت دیکھتے ہوئے انہیں ییل یونیورسٹی امریکہ سے پبلک ہیلتھ میں ایم اے کرنے کیلئے اسکالر شپ دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ییل یونیورسٹی نے نہ صرف ان کی طبی و عملی تربیت کی بلکہ زندگی کے بارے میں ان کے زاویہ نگاہ کو ہی بدل دیا۔ انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی میں ’’تجربہ کار‘‘ پروفیسر کرم خوردہ نوٹس کے حوالے سے یک طرفہ لیکچر نہ دیتے تھے۔ بلکہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ قدم قدم پر کوئی نہ کوئی نئی ریسرچ ہورہی ہے۔ ہر لیبارٹری میں دکھی انسانیت کو کسی موذی مرض سے نجات دلانے کیلئے کوئی نئی تحقیق ہورہی ہے اور اس تحقیق کو لیبارٹری تجربات کے ذریعے مستند ثابت کیا جارہا ہے۔ یونیورسٹی کے کتب خانوں میں خواتین و حضرات مطالعے میں محو دکھائی دیتے ہیں۔ ییل یونیورسٹی میں امریکہ کے باسیوں کیلئے ہی نہیں بلکہ افریقہ کے غریب حبشیوں کے لئے، ایشیا اور لاطینی امریکہ کے بے وسیلہ باشندوں کے علاج کیلئے سوچ بچار کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر سعید اختر نے بتایا کہ میں اس سارے ماحول سے بے حد متاثر ہوا اور میں نے اپنے دل میں تہیہ کرلیا کہ عنقریب وہ دن آئے گا کہ جب میں پاکستان آکر وہی ییل والا ماحول پیدا کروں گا اور ایک ایسا انسٹی ٹیوٹ بنائوں گا جہاں ایک طرف جدید سے جدید تحقیق ہوگی اور دوسری طرف دکھی انسانیت کیلئے ایک جدید اسپتال ہوگا جہاں امیروں کے ساتھ ساتھ غریبوں کا بھی اسی معیار کا علاج ہوگا۔
ڈاکٹر سعید اختر نے امریکہ میں صرف سترہ سال کام کیا اور پھر انہوں نے وہ فیصلہ کرنے میں چند گھنٹے بھی نہ لگائے جو فیصلہ کرنے میں اوورسیز پاکستانی برسوں لگا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے واپس پاکستان آنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہاں آکر انہوں نے شفاء انٹرنیشنل اسپتال جوائن کرلیا۔ انہوں نے یہاں یورالوجی کا شعبہ ابتدا سے شروع کیا اور اسے ایک اعلیٰ بین الاقوامی معیار کا ڈپارٹمنٹ بنادیا۔ ڈاکٹر صاحب نے اسپتال کی انتظامیہ سے یورالوجی وارڈ میں غریب مریضوں کے علاج کیلئے چار بیڈ حاصل کئے۔ ان بیڈز کے ذریعے گزشتہ سترہ برس میں ایک لاکھ پانچ ہزار مریضوں کا مفت علاج کیا گیا ہے۔ جن میں سے بعض کے گردوں کا ٹرانسپلانٹ بھی کیا گیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ غریب مریضوں کیلئے ملک کے اندر اور باہر سے اہل خیر، دل کھول کر عطیات دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں ہمیں کبھی وسائل کی کمی محسوس نہیں ہوئی۔
شعبہ یورالوجی میں محدود تعداد میں غریب مریضوں کے علاج سے ڈاکٹر سعید اختر کو ایک گوناگوں حوصلہ تو ملا مگر ان کا اصل مشن اس سے کہیں وسیع تر اور عظیم تر تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ غیب سے ان کے مشن کی تکمیل کا سامان ہوگیا اور پنجاب کے خادم اعلیٰ نے ان کے خلوص کو سراہا اور ان کی سربراہی میں 50ایکڑ کے قطعہ اراضی پر ڈیفنس کے فیز چھ اور سات کے سامنے پاکستان کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ انسٹی ٹیوٹ کے قیام کا فیصلہ کرلیا۔ ڈاکٹر سعید اختر اس کے ڈائریکٹر ہوں گے۔ انسٹی ٹیوٹ میں 800بیڈ کا اسپتال ہوگا بیڈز کی تعداد 1500 تک بڑھائی جاسکے گی۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ میں ییل یونیورسٹی، ہاورڈ یونیورسٹی، یونیورسٹی آف فی سوٹا اور ڈائون ٹائون یونیورسٹی جہاں بھی گیا وہاں سے میں ان کی خوبیوں کو پلے باندھ کر لایا اور تمام اداروں کی خوبیوں سے کام لے کر ہم پی کے ایل آئی کو بین الاقوامی معیار کا اعلیٰ ادارہ بنادیں گے جہاں غریبوں اور امیروں کا یکساں علاج بھی ہوگا اور اعلیٰ درجے کی تخلیقی تحقیق بھی ہوگی۔ ڈاکٹر سعید اختر کا کہنا ہے کہ میں نے پاکستان میں طبی خدمات کے دوران محسوس کیا کہ جب بیماری اور غربت اکٹھے ہوتے ہیں تو پھر انسان کی بے بسی اور بے کسی دیکھی نہیں جاتی۔
یہی جذبات و احساسات یونیورسٹی آف سرگودھا کے سابق وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم کے تھے جنہوں نے یونیورسٹی کیلئے دوسری بہت سی ناقابل فراموش خدمات کے علاوہ یونیورسٹی کا تشخیصی و طبی سینٹر قائم کرکے سرگودھا کے علاقے میں ایک قابل تقلید طبی مرکز قائم کردیا۔ سرکاری اسپتالوں میں ایڑیاں رگڑنے والے مریض یونیورسٹی کے تشخیصی مرکز آتے ہیں اور صرف 2سو روپے فیس ادا کر کے ان ماہرین سے اپنا علاج کرواتے ہیں جو پرائیویٹ اسپتالوں میں آٹھ سو روپے سے لے کر ایک ہزار تک فیس وصول کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اکرم چوہدری نے اعلیٰ معیار کی ٹیسٹ لیبارٹریاں بھی قائم کروائی تھیں۔
جہاں آغا خان اور شوکت خانم کے معیار کے ٹیسٹ ان اسپتالوں کے ریٹ سے آدھے نرخوں پر ہوتے ہیں۔ یونیورسٹی آف سرگودھا کے موجودہ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ظہور الحسن ڈوگر عوامی خدمت کا یہ منصوبہ جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ ہم حکومت پنجاب سے بھرپور اپیل کریں گے کہ وہ ڈاکٹر اکرم چوہدری کا یونیورسٹی طبی ماڈل ہر یونیورسٹی میں قائم کریں تاکہ خلق خدا کو ہر شہر میں اعلیٰ معیار کی طبی سہولتیں نہایت ارزاں نرخوں پر میسر ہوں۔ ڈاکٹر اکرم چوہدری نے ہمارے ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا کہ غریب مریضوں کی برائے نام فیس پر خدمت کے باوجود یونیورسٹی کو ڈیڑھ دو کروڑ کی سالانہ آمدنی بھی ہوتی ہے۔
ہم ڈاکٹر سعید اختر کے کڈنی اور لیور ٹرانسپلانٹ سینٹر اور یونیورسٹی تشخیصی مراکز کی پنجاب بھر میں ترویج کیلئے صدق دل سے دعاگو ہیں۔
تازہ ترین