• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ہمسایہ برادر اسلامی ملک ایران کے صدر حسن روحانی نے 23؍مئی 2016ء کو ایران، بھارت اور افغانستان کے درمیان ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے بنیادی ڈھانچے کی ترقی اورتجارتی راہ داری کے معاہدے پر دستخط کے بعد کہا کہ آج تینوں ممالک کے تعاون کی یہ ایک عظیم مثال ہے۔ افغانستان کے صدر نے کہا کہ چاہ بہار بندرگاہ کی توسیع اور اس سے منسلک منصوبوں سے ان ملکوں کو بھی تجارتی راہداری میسّر آئے گی جنہیں پاکستان کا راستہ استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل سے بھارت کو بھی براستہ ایران اور افغانستان تیل و گیس کی دولت سے مالامال وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ تک اور افغانستان کو سمندری راستے سے تجارتی راہ داری مل جائے گی۔ چین بھی آگے چل کر اس منصوبے میں شریک ہو جائے گا۔ چین پہلے ہی ایران سے تجارتی روابط بڑھا رہا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ استعماری طاقتوں کی سازش یہ ہے کہ خدا نخواستہ پاکستان کا نقشہ اس طرح تبدیل کرا دیا جائے کہ اس کی سرحدیں ایران، افغانستان اور چین سے نہ ملیں۔
ایران کے صدر نے پاکستان کے سرکاری دورہ کے موقع پر پاکستان کو بجلی کی فوری فراہمی کی پیشکش کرنے کیساتھ اسلام آباد پر زور دیا کہ پاکستان، ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر فوری طور پر کام شروع کیا جائے کیونکہ ایران پہلے ہی دو ارب ڈالرز خرچ کر کے اپنے حصّے کا کام مکمل کر چکا ہے۔ یہ بات پریشان کن ہے کہ پاکستان امریکی دبائو کی وجہ سے ان منصوبوں میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں، ہماری اپنی غلطیوں اور کچھ دوسری وجوہات کی بنا پر پاکستان اور ایران کے تعلقات میں تنائو کی کیفیت ہے۔ پاکستان اس حقیقت کو بھی فراموش کر رہا ہے کہ ایران پر سے عالمی اقتصادی پابندیاں اٹھنے سے اس مال دار اسلامی ملک میں تجارتی و اقتصادی سرگرمیوں میں زبردست اضافہ ہو گا جس سے بھارت، چین اور افغانستان فائدہ اٹھائیں گے جبکہ پاکستان محروم رہیگا۔ بھارت تیزی سے ایران، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، افغانستان اور چین سے اپنے تعلقات بڑھا رہا ہے۔
امریکہ اور خلیجی ریاستوں نے بھارت کو اپنا اسٹرٹیجک پارٹنر قرار دیا ہے جبکہ چین، بھارت، روس، برازیل اور جنوبی افریقا کے ساتھ مل کر ایک عالمی مالیاتی ادارہ بنا چکا ہے۔ بھارت اب امریکا کی مدد سے جنوبی ایشیا اور مغربی ایشیا میں اپنی بالادستی قائم کرنے کی حکمت عملی پر پیش رفت کررہا ہے۔ پاکستان داخلی انتشار اور اس کی معیشت مشکلات کا شکار ہے اور وہ خطے میں تنہا ہوتا جارہا ہے۔ وائس ایڈمرل (ر) فیاض الرحمان نے یوم تکبیر کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت خطے میں اپنے آپ کو برطانیہ کا وارث سمجھتا ہے اور وہ بحرہند میں غالب کردار ادا کرنے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے (جنگ 28؍2016ء) گزشتہ 14برسوں سے امریکی ایجنڈے کے مطابق دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر لڑی جانے والی جنگ میں صرف طاقت کا استعمال کرنے اور قبائلی بھائیوں کے دل و دماغ جیتنے کیلئے اقدامات نہ اٹھانے کی وجہ سے یہ جنگ تباہی اور خسارے کا سودا رہی ہے۔ اس ضمن میں چند توجہ طلب نکات یہ ہیں:۔
(1) حکومت پاکستان کے یہ بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں کہ کچھ امریکی اقدامات طالبان کے ساتھ پاکستان کے امن مذاکرات کا قتل اور انہیں ناکام بنانے کی سازش ہیں۔ افواج پاکستان کے ترجمان نے نیٹو افواج کی فائرنگ سے وردی میں ملبوس پاکستانی فوج کے اہلکاروں کی ہلاکت کو بجاطور پر غلطی نہیں بلکہ سازش قرار دیا تھا۔
(2) ممتاز امریکی دانشور نوم چومسکی کا کہنا ہے کہ امریکا ڈرون حملے کرکے پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی کو ہوا دے رہا ہے اور یہ کہ امریکا نے پاکستان کی اشرافیہ کو خرید لیا ہے۔
(3) پاکستان میں مختلف حکومتیں اس بات کا اعتراف کرتی رہی ہیں کہ بھارتی اور افغان خفیہ ایجنسیوں کے اراکین بلوچستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔ یہ بھی واضح ہے کہ امریکا کی مرضی کے بغیر افغانستان سے یہ کارروائیاں کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔
(4) ہماری مختلف حکومتیں یہ بھی تسلیم کرتی رہی ہیں کہ پاکستان میں رہائش پذیر لاکھوں افغان مہاجرین میں سے کچھ افراد پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ افغان مہاجرین کو واپس بھیجے بغیر آپریشن ضرب عضب کی کامیابی کا امکان روشن نہیں ہے۔ بلوچستان کے وزیر داخلہ نے افغان مہاجرین کو پاکستان کی سالمیت کیلئے خطرہ قرار دیا ہے۔
(5) پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کا افغانستان میں آنا جانا روز کا معمول ہے جبکہ ان کے بھیس میں دہشت گرد اور جاسوس بھی پاکستان میں داخل ہوجاتے ہیں چنانچہ پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے یا کم از کم نگرانی کا موثر نظام نافذ کئے بغیر پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔
(6) معیشت کو دستاویزی نہ بنانے، ہر قسم کی آمدنی پر وفاق اور صوبوں کی جانب سے موثر طور سے ٹیکس عائد نہ کرنے، کرپشن پر قابو نہ پانے، کالے دھن کو پیدا ہونے سے نہ روکنے اور ہنڈی و اسمگلنگ وغیرہ کا تقریباً 50؍ارب ڈالر سالانہ کا کاروبار ہوتے رہنے سے معیشت تباہ ہورہی ہے اور غربت، بے روزگاری اور احساس محرومی میں اضافہ ہونے سے نہ صرف انتہا پسندی کو فروغ مل رہا ہے بلکہ دہشت گردوں کو مالی معاونت بھی مل رہی ہے۔
(7) اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے بغیر کرپشن اور ٹیکس کی چوری کی رقوم کو قانونی اور غیرقانونی طریقوں سے باہر بھیجنا اور ترسیلات کے نام پر واپس لاکر سفید بنانا ممکن ہے۔ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
(8) یہ ملک و قوم کی بدقسمتی ہے کہ گزشتہ 14؍برسوں میں بھی امریکی حکمت عملی کے مطابق دہشت گردی کے ضمن میں انتہائی مشکل فیصلے تو مختلف حکومتوں کے دور میں کئے جاتے رہے ہیں مگر ملکی سالمیت اور معیشت کی بہتری کیلئے ایسے اقدامات اٹھانے سے گریز کیا جاتا ہے جن سے طاقتور طبقوں کے ناجائز مفادات متاثر ہوتے ہیں۔
مندرجہ گزارشات اور حقائق کی روشنی میں ہم یہ بات کہنے کیلئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ سوات یا پھر جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن سے پہلے یا کم از کم آپریشن ضرب عضب سے پہلے پاکستان کے مفادات کے تحفظ کیلئے موثر حکمت عملی وضع کی جانی چاہئے تھی۔ اب بھی وقت ہے کہ آل پارٹیز کانفرنس کے تحت ملک کی سیاسی و عسکری قیادت ان تمام امور کے ضمن میں موثر فیصلے کرے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو معیشت مشکلات کا شکار رہے گی، ملک کی سلامتی کیلئے خطرات بڑھیں گے، 2019ء میں معیشت بحران کا شکار ہوگی اور پاک چین اقتصادی راہداری سے ملک کی قسمت بدلنے کا خواب پورا نہ ہوسکے گا۔
تازہ ترین