• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج ہم جن عادتوں کے مالک ہیں‘ ان کی تشکیل ایک دو دن میں نہیں ہوئی۔ زمین پہ بیتے ہوئے کروڑوں سال کا تجربہ ہمارے لاشعور میں دفن ہے۔دنیا بھر کی دولت اکھٹی کرنے کے باوجود انسان بھوکا مرنے سے اس لیے خوفزدہ ہے کہ اس نے واقعتاً لوگوں کو بھوک سے مرتے ہوئے دیکھ رکھا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ تمام تر دولت کے باوجود بھوک کا خوف ایک حیوانی جبلت بن کر اس کے خون میں دوڑنے لگا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ خوف مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ہماری اکثریت کو زندگی میں ایک وقت کا فاقہ بھی کرنا نہیں پڑا ، اس کے باوجود سب کے لاشعور میں بھوکا مرنے کا خوف بدرجہ ء اتم موجود ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین پر دم دار ستارے گرنے سے لے کر بڑے آتش فشاں پھٹنے تک‘ ایسے حادثات ہوتے رہے‘ جن میں جانداروں کی ایک عظیم اکثریت ہلاک ہوتی رہی۔ انسان کے دماغ میں کبھی ختم نہ ہونے والا خوف بیٹھ چکا ہے۔ اس کا لاشعور اسے بتاتا رہتاہے کہ کل بہت برا ہونے والا ہے ۔ اس سے بچنے کیلئے زیادہ سے زیادہ دولت اکھٹی کر لو۔ہو سکے تو پیسے بیرونِ ملک منتقل کر دو ۔ کنگلے کی پریشانی سمجھ میں آتی ہے لیکن جن سیاستدانوں نے اربوں روپے اکھٹے کر لیے ہیں ، وہ کیوں پریشان ہیں ؟ بھوک سے کوئی نہیں مر رہا‘لیکن بھوک کا خوف سب کو مار رہا ہے۔ مستقبل کے اس خوف میں سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انسان حال میں موجود آسائشوں سے ذرہ برابر بھی لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ اس کی کوشش ہوتی ہے کہ پہلے مستقبل محفوظ بنا لیا جائے‘ پھر زندگی کا لطف اٹھائیں گے۔ جب مستقبل محفوظ ہوتا ہے‘ تو اس وقت تک اس کی صحت بگڑ چکی ہوتی ہے ۔

دنیا کی سب سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ انسان اپنا مستقبل کسی صورت محفوظ نہیں بنا سکتا۔نفس ایک طرف تو بھوکا مرنے کے خوف میں مبتلا کر کے انسان کو دولت اکٹھی کرنے پہ لگا دیتا ہے،دوسری طرف جب یہ کسی کا جنازہ دیکھتا ہے تو اپنی ساری حیوانی چالاکیوں اور خواہشات کی مدد سے انسان کو یقین دلاتا ہے کہ تمہیں ہرگز نہیں مرنا۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی انسان کوئی جنازہ دیکھتا ہے تو سب سے پہلا لفظ جو اس کے ذہن میں آتا ہے‘وہ ’’بیچارہ‘‘ ہوتا ہے۔ دوسرا دھوکہ نفس انسان کو یہ دیتا ہے کہ وہ اسے یقین دلادیتا ہے کہ اگر اس نے زیادہ دولت اکٹھی کر لی تو مستقبل محفوظ ہو جائے گا۔ حالانکہ جس طرح کے جسم میں ہماری رہائش ہے ، وہ اس قدر نازک ہے کہ ہم اپنا مستقبل محفوظ بنا ہی نہیں سکتے ۔ ایک نس ٹس سے مس اور کھیل ختم ۔

دوسری چیز ہے خیالات کی بوچھاڑ۔ انسانی ذہن پر ہر وقت خیالات نازل ہو رہے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لاشعوری طور پر دماغ کے سوچنے کی رفتار بہت زیادہ تیز ہو چکی ہے۔ ان خیالات کا بھی ایک بہت بڑا حصہ دولت کے حصول کی خواہش پر مشتمل ہوتاہے۔ 99فیصد وقت انسانی دماغ دولت اور عورت کی دو حیوانی خواہشات تلے دبا ہوا کراہتا رہتا ہے ۔ روحانی طور پر انسان بہت کمزور ہو جاتاہے اور اس کی جبلّتیں بہت طاقتور۔ یہی وجہ ہے کہ ساری زندگی انسان ایک بے چینی میں گزار دیتاہے۔ جتنا زیادہ وہ سمیٹتا چلا جاتاہے‘ اتنا ہی اس کی بے چینی میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے۔روح بیچاری علم اورعبادت کی پیاس میں تڑپتی رہتی ہے۔ سرکارِ د و عالم ﷺنے فرمایا تھا: ابنِ آدم کے پاس‘ اگر سونے سے بھری ہوئی ایک وادی ہو تو وہ ایسی ہی ایک دوسری وادی کی آرزو کرے گا اور مٹی کے سوا کوئی چیز اس کا پیٹ نہیں بھر سکتی۔

محفوظ مستقبل ایک سراب ہے۔ جب آپ اس کے نزدیک پہنچتے ہیں تو پانی کی بجائے وہ ریت ثابت ہوتاہے۔ زندگی بھر وہ بھٹکتا رہتاہے۔ کوئی انسان بھی دولت یا ہتھیار اکٹھے کر کے اپنے مستقبل کو محفوظ نہیں بنا سکتا۔ اللہ جسے محفوظ رکھنا چاہے وہ حضرت خالد بن ولیدؓ کی طرح ساری زندگی محفوظ رہے گا۔ جس کے نصیب میں پریشانی ہے‘ تمام تر وسائل کے باوجود ہو سکتاہے کہ اسے کوئی لا علاج بیماری لاحق ہو جائے ۔

یہ جسم ایسا نہیں کہ انسان اس میں بیٹھ کر محفوظ مستقبل کے سپنے دیکھ سکے۔ یہاں زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ مومنٹ ٹو مومنٹ جینا ہے ۔ زیادہ وسائل اکٹھے ہونے کے باوجود انسان کے خوف میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک‘ جن جن حالات سے گزرنا پڑتا ہے‘ وہ سب تو خدا کے ہاتھ میں ہے۔ لمحہ ء حاضر میں‘ اگر آپ خوش ہیں تو آپ واقعی خوش ہیں۔لمحہ ء حاضر میں‘اگر آپ شکر گزار ہیں‘ تو آپ واقعی شکر گزار ہیں۔ اگر آپ کچھ حاصل کر کے خوش ہونا چاہتے ہیں تو وہ تو ایک سراب ہے۔اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑدیا جائے ۔ زندگی میں شدید جدوجہد کرنا ہوتی ہے ۔ اس کے ساتھ مگر اپنے حال پہ انسان کو شکرگزار بھی ہونا چاہئے ورنہ ساری زندگی وہ حالات بہتر کرنے کی خواہش میں مضطرب ہی رہے گا۔

تازہ ترین