• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ محلے کی ماسی پر بڑا منحصر ہے ، کہ وہ گلی گلی اور گھر گھر کسی کی کیا ہوا باندھتی ہے۔ماسی اچھائی یا برائی کی گھنٹی محسن کے گلے میں باندھ دے یا رقیب کے ، کون بے چارہ پھر سب کو وضاحتیں دیتا پھرے، ماسی چوہدری کو زبان و بیان پر لائے، محلے کے منشی یا چھوٹے تھانیدارکے بارے بے پر کی اڑا دے ماسی تو ماسی ہے ۔ محلے میں رہنے والے ہوں یا محل میں وہ جانتے ہیں ماسی ترقی کرکے اب ایک کیفیت بن چکی ہے، جو کہیں بھی اور کسی میں بھی گھس کر بیٹھ جاتی ہے! حقیقی لیڈر شپ کےمگر کان کچے نہیں ہوتے گویا اسٹیٹس مین ان ماسیوں کے چکر میں نہیں آتا ، لیڈر شپ قوم کی اٹھان اور بین الاقوامی شان کو مدنظر رکھ کر آگے بڑھتی ہے، اگر لیڈرشپ کو اپنے انتظار، اپنی نیند اور اپنی بھوک (حرص و ہوس کی بھوک) پر کنٹرول نہ ہو تو یہ بگاڑ کا تو پیش خیمہ بن سکتی ہے بناؤ کا نہیں۔ دراصل بناؤ اور حقیقی لیڈر شپ کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے۔ اگر کوئی آپ کی چھتری تلے دوسری چھتری چھوڑ کر آئے تو اس کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ آنے والا اگر پہلے نامناسب تھا تو آپ کی قربت میں مناسب ہوگیا، یہ بھی نہیں کہ آپ کی سیاسی مُنڈیر سے اڑ کر دوسری پر جائے تو لوٹا۔

چشم فلک گواہ ہے کہ 2018کے بعد ملکی صورتحال گو مَگو کی کیفیت سے باہر نہیں نکلی ، یہ درست ہےکہ کورونا وبا نے اقتصادیات کی چولیں ہلادیں ، اور یہ بھی یاد رہے کہ صرف پاکستان کی نہیں ہلائی تھیں پورا عالم پریشان ہوا تھا مگر وہ جو مضبوط تھے ، جن کی معاشی حالت تگڑی تھی ان کے ہاں مہنگائی ضرور ہوئی مگر ایکسپورٹ کے دریچے کھلے رہے۔ کسی قوم کی عظمت کا پتہ عام طور سے چار باتوں سے چلتا ہے (1) برآمدات کا عالم کیا ہے (2) یونیورسٹیوں کی ریسرچ عملی دھارے میں کتنی شامل ہوئی (3) استاد کا احترام کتنا ہے (4) عدل و انصاف کا اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ لیکن ہمارا معاملہ یہ ہے کہ ہمارے مقبول ترین لیڈر نے 22 سالہ جدوجہد کے بعد پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کیلئے سردار عثمان بزدار دریافت کیا، اور 26 سالہ محنت کے بعد چوہدری پرویز الٰہی ملا۔

وہ شخص جو بین الاقوامیت کی علامت گنا جاتا تھا جب عنان اقتدار سنبھالی تو سب سے زیادہ پسپائی بین الاقوامیت ہی میں ہوئی، سعودیہ دور ہوگیا، ملائشیا کو جی صدقے کہنے والا ملائشیا سے دور ہوگیا، مودی کی انتخابی جیت کو جی آیاں نوں کہنے والے کو بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے 370 اور 35 اے دفعات کو سبوتاژ کرنے کا تحفہ دیا، سی پیک اور چائنہ تعلقات ٹھنڈے ہی نہیں ہوئے فریز ہونے کی حد تک پہنچ گئے، وہ امریکہ جس نے کووڈ 19 سے بچنے کیلئے پاکستان کو 6.3ملین ویکسینز دیں اس سے تعلقات خراب ہوگئے، امریکہ مخالف سیاست کو بروئے کار لائے اور ماضی کی طرح ریاست مدینہ کے نام پر سیاست کو استوار کرکے انقلاب لانے کے وہ پرانے طریقے آزمائے گئے کہ رہے نام اللہ کا۔

دوسری جانب، جانے نون لیگ کو کیا نظر آیا کہ چار دن کی چاندنی کیلئے اپنی سیاست کا حشر نشر کرلیا۔ نون لیگ کا کامیاب و کامران ایک ہی بیانیہ تھا کہ اس نے ملک کے طول و عرض میں ترقیاتی کام کرائے، بجلی کی کمی پوری کی، 18ویں ترمیم میں پیش پیش رہی۔ بیانیہ بھی وہ جو جسمانی شکل رکھتا تھا نہ کہ جھوٹ کا پیرہن۔ مگر تحریک عدم اعتماد کی ’’حاصل کردہ ‘‘کامرانی کے بعد وہ کوئی بیانیہ بنا سکی نہ دکھا سکی کیونکہ وقت ہی مشکل تھا۔ جو معیشت قدرے ٹھیک تھی اسے 2019 کے آئی ایم ایف (عمران حکومت)کے معاہدہ نے اپاہج کردیا، یوں بیساکھی سے چلنے والی معیشت کو ریس کا گھوڑا سمجھ کر شہباز حکومت نے اپنی اننگ کا آغاز کیا جسے عالمی پذیرائی نصیب نہ ہوئی، عالمی برادری نے سابق وزیراعظم کی باتیں اور نعرے سن کر پاکستان کو غیر یقینی صورتحال کی آماجگاہ قرار دے دیا، فیٹف سے خدا خدا کر کے نکلے تو آئی ایم ایف میں پھنس گئے ، آئی ایم ایف سے نکلے تو بیس سیٹوں پر نون لیگ کی شکست کے سبب ڈیفالٹ ہونے کی دہلیز پر جا پہنچے، میں ڈالر کی موجودہ قیمت گر 230لکھوں تو ہو سکتا ہے خاکسار کے صریر خامہ کی بازگشت تک یہ مزید اوپر چلا گیا ہو۔ یہی وہ خطرہ تھا جس سے عمران خان نے بطورِ وزیرِ اعظم ہی ڈرایا دھمکایا تھا کہ میں باہر زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا، اور وہ زیادہ خطرناک ہوگئے ، اس پر انہوں نے یو ٹرن بھی نہیں لیا!

اب اقتصادی گڑ بڑ اور بے یقینی کا عالم یہ ہے کہ، وفاقی وزیر خزانہ اگر یہ کہیں کہ 2ارب لٹر ڈیزل موجود ہے اور 60 دن تک درآمد کرنے کی ضرورت نہیں تو داخلی و خارجی سطح پر کوئی ماننے کو تیار نہیں۔ وفاقی وزیر کہہ رہا ہےحکومت نے 3 ماہ کے دوران گردشی قرضے میں 214 ارب روپے کی کمی ہے تو کوئی یقین ہی نہیں کر رہا،دعویٰ یہ ہے کہ ہم نے ڈالر کے ان فلو اور آؤٹ فلو میں توازن قائم کرلیا ہے۔ مگر عام ادمی کے حالات تو بد سے بد تر ہوگئے، پنجاب کی تبدیلیوں کا چکر اور مکر مزید لے ڈوبے گا، میڈیا اپنی اپنی اور سیاستدان اپنی اپنی بولی بولتے رہیں گے۔ کوئی اسٹیٹس مین نظر نہیں آرہا جو اسٹیٹ کی بولی بولے ، جھوٹ ہے کہ مہنگے داموں بک رہا ہے اور یہ جھوٹ رزق اور اقتصادیات کو کھا گیاہے ، وفاقی حکومت کی ساکھ پرانے جھوٹوں سے پیوند خاک ہوچکی پھر بھی ہم فہم و فراست کو اپنی دہلیز پار نہیں کرنے دے رہے مگر ماسیوں کو آنے کی اجازت ہے جو شر کا در وا کئے ہوئے ہیں، لیڈر شپ اور قوم کے کان کچے ہوں تو نصیب یہی ہوتا ہے !

تازہ ترین