• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حالیہ کچھ عرصے میں عمران خان کو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیابھرمیں جو مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس کاشایدانہوں نے خود بھی تصورنہ کیا ہوگا۔ اگر عمران خان کواقتدارجاری رکھنے اور آئینی مدت پوری کرنے کی اجازت دے دی جاتی اور اس کے بعدوہ انتخابات میں حصہ لیتے تو ان کو کئی ایک سیٹوں سے ہاتھ دھونا پڑتے اور مسلم لیگ نون پہلے سے کہیں زیادہ نشستوں کے ساتھ پنجاب اور وفاق میں حکومت تشکیل دیتی لیکن جس طریقے سےعمران خان کو ہٹانے کےلئےکھیل کھیلاگیا ،یہ کھیل مسلم لیگ نون کے گلے پڑ گیا اور ساری کی ساری تدبیریں الٹی پڑ گئیں۔پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھاکہ اقتدار سے محروم کئے جانے والےوزیراعظم عمران خان کی صرف ایک کال پر پورے پاکستان میں لوگ سڑکوں اور پارکوں میں نکل آئے حالانکہ عمران خان جو وزاتِ عظمیٰ سے ہاتھ میں صرف ایک ڈائری ہی لے کر نکلے تھےکو شاید خود بھی امید نہ تھی کہ لوگ اس طرح جوق در جوق لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر ان کی حمایت میں نکل آئیں گےکیونکہ پاکستان میں ہمیشہ سےیہی ہوتے آیا ہےکہ جو ایک دفعہ اقتدار سے ہٹایا گیا وہ عوام کےدلوں سے بھی دور ہوتا چلا گیا۔

پاکستان کی تاریخ میں جتنی مقبولیت بھٹو کوحاصل ہوئی شایدہی کسی لیڈر کو حاصل ہوئی ہو لیکن بدقسمتی سے ان کی مقبولیت قائم نہ رہ سکی اور اب یہ پارٹی صرف سندھ تک ہی محدودہو کررہ گئی ہے۔ بہت عرصے بعد اگر پاکستان میں کسی لیڈر کو بھٹو سے بھی زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے تو وہ بلا شبہ عمران خان ہی ہیں۔ عمران خان صرف ایک صو بے تک محدود نہیں ہیں بلکہ اب وہ خیبر پختونخوا اورپنجاب کے علاوہ سندھ میں بھی اپنی مقبولیت ( عمران خان کی سب سے بڑی غلطی کراچی اور حیدر آبادکو نظر انداز کرنا ہے حالانکہ کراچی اور حیدر آباد کوایم کیو ایم کے زوال کے بعد عمران خان کا سب سے بڑا گڑھ ہونا چاہئےتھا) کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں اور وہ ہی پاکستان کے ایک ایسے واحدلیڈر ہیں جن کو پورے پاکستان میں یکساں شہرت حاصل ہے۔ اس لئےتوقع کی جا رہی ہےکہ عمران خان کو آئندہ انتخابات میں وفاق اورتمام صوبائی اسمبلیوں میں واضح اکثریت حاصل ہوگی اور یہ اکثریت عمران خان کی جماعت کو پارلیمنٹ میں آئین میں ترامیم کرنے کا حق بھی عطا کرسکتی ہے۔

عمران خان نے ساڑھےتین سال حکومت کی ہے اس میں انہوں نےبڑی فاش غلطیاں بھی کی ہیں جس کا ان کو خمیازہ بھی بھگتنا پڑا ہے اور خاص طور پر انہوں نےجس طرح اپنی پارٹی کے ورکروں کو چھوڑ کر Electabalesکو ٹکٹیں دیں ، جولوٹوں کا روپ اختیار کرگئے اور ان کی حکومت کو گرادیا ۔

اگرعمران خان مزید کامیابیاں حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں ترک صدر رجب طیب ایردوان کی مثال کوسامنےرکھناہوگا۔ترکی میں کئی د ہا ئیو ں کے بعد ایردوان کی جسٹس اینڈ ڈویلپمینٹ پارٹی نے پارلیمنٹ میں کلی اکثریت حاصل کی تھی لیکن اس کے باوجود ان کو اپنے پہلے دور میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اس وقت ترکی میں آئینی عدلیہ کے سابق سربراہ احمد نجدت سیزر، جنہیں ایردوان سے قبل بائیں بازو کی جماعتوں کے اتحاد نےملک کا صدر منتخب کروایا تھا، نے ایردوان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ایسی رکاوٹیں کھڑی کردیں جس کی اس سے پہلے کوئی نظیر نہیں ملتی۔ پھرفو ج نےملکی اقتدار پراپنی گرفت کسی نہ کسی طریقے سےمضبوط رکھی اور ایردوان کواہم عہدوں پر اپنے پسند کےحکام کو متعین کرنےکی ہر گز اجازت نہ دی لیکن ایردوان نےفوج اورصدر کے شدید دباو کےباوجود حتی الوسع ملک کی ترقی کیلئے اپنےمنصوبوں کو عملی جامہ پہنانےکا سلسلہ جاری رکھا۔ سب سے پہلے ملک کی اقتصادی ترقی کی جانب توجہ مبذول کی کیونکہ ترکی شدید ترین اقتصادی بحران سے دوچار تھا ، ترکی نے اس دور میں ناقابل ِیقین حد تک بڑی سرعت سے ترقی کی ۔

ترکی کی اقتصادی ترقی کے پیش نظر اسے جی-20 ممالک کی صف میں شامل کرلیا گیا اور پھر ترکی نے کبھی پیچھےمڑکر نہ دیکھا (یہ الگ بات ہےکہ ترکی موجودہ دور میں ایک بار پھراقتصادی بحران سے دوچار ہے اور صدر ایردوان آئندہ انتخابات سے قبل اس بحران پر قابو پانے کا ارادہ رکھتے ہیں ) وزیراعظم کی حیثیت سے اپنا مقام منوانے کے بعد ایردوان نے ملک میں صدارتی نظام متعارف کروایا اور ان کے صدر منتخب ہونے کے بعد صدر ایردوان کی اپنی عظمت منوانے اور ایک عالمی رہنما کا اسٹیٹس حاصل کرنے کی راہیں خود بخود کھلتی چلی گئیں۔

صدر ایردوان نے اپنے تین ادوار وزیراعظم کی حیثیت ہی سے گزارے تھے اور اپنے وزیراعظم کے آخری دور میں ملک میں صدارتی نظام متعارف کروانے کے منصوبے پر کام کرتے ہوئے اسے عملی جامہ پہنایا۔عمران خان کو آئندہ انتخابات میں کلی اکثریت حاصل ہونے کے بعد سب سے پہلے ملک کی اقتصادی ترقی کی طرف توجہ دینا ہوگی اور اپنی ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے دور اقتدار کے آخری دو سال میں جس طرح ساڑھے چھ فیصد کی شرح ترقی کا ہدف حاصل کیا تھا اسی طرح کی منصوبہ بندی پہلے دن ہی سے کرنا ہوگی۔ عمران خان وزیراعظم کی حیثیت سےغلطیوں سے سبق حاصل کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر سکتے ہیں ،اس لئے کہ ان میں وہ صلاحیتیں موجود ہیں جو صدر ایردوان میں ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین