• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اتحادی حکومت عوام کو ریلیف فراہم کرنے کا جو نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی وہ اسے پورا کرنے میں ناکام رہی ہے اور ان کے چند مہینے کے اقتدار میں ہونے والی مہنگائی کا غصہ عوام نے ان کے خلاف ووٹ دے کر اتارا ہے۔

ان حالات میں اگر سیاسی عدم استحکام ختم کرنے کیلئے فوری اقدامات نہ کئے گئے تو معاشی محاذ پر بھی پاکستان کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ عوامی مینڈیٹ کا احترام نہ کرنے کی وجہ سے پہلے ہی گزشتہ چند مہینوں کے دوران معاشی ابتری اس سطح پر پہنچ گئی ہے کہ پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خطرہ سروں پر منڈلا رہا ہے۔ ملک میں اس وقت ایک ڈالر کی قدر227روپے کا ہندسہ عبور کر چکی ہے اور اس میں اضافہ رکنے میں نہیں آ رہا جبکہ پیٹرول کی قیمت بھی 233روپے فی لیٹر تک جا چکی ہے۔

اس صورتحال میں انڈسٹری کیلئےبیرون ملک سے خام مال منگوانا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے کیونکہ اگر اس قدر مہنگی قیمت پر کوئی مال منگوا بھی لیا جائے تو اس سے تیار مصنوعات کی قیمت اتنی زیادہ ہو جائے گی کہ وہ خریدار کیلئےاداکرنا مشکل ہو جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے جیسے سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہو رہا ہے معاشی ابتری بھی بڑھتی جا رہی ہے اور معاشی سرگرمیاں کم سے کم ہوتی جارہی ہیں۔

اس حکومت کی معاشی ٹیم نے جہاں آئی ایم ایف کا پروگرام بحال کروانے میں سست روی کا مظاہرہ کیا ہے وہیں معیشت کو بہتر بنانے کیلئے بھی بروقت فیصلے نہیں کئے ۔علاوہ ازیں سیاسی محاذ آرائی میں اضافے کی وجہ سے بھی سیاسی غیر یقینی بڑھنے کے سبب معاشی مسائل مزید گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ اسی وجہ سے مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت اوپر سے اوپر جا رہی ہے۔ ان حالات میں حکومت اور اسٹیٹ بینک کو فوری نوٹس لینا چاہئے تھا اور اس سلسلے میں کمرشل بینکوں اور منی چینجرز کی مشاورت سے ہنگامی پالیسی تشکیل دی جانی چاہئے تھی تاکہ روپے کی قدر کو مستحکم رکھا جا سکتا لیکن بدقسمتی سے اس محاذ پر بھی خاموشی آ رہی ہے۔

پاکستان کو درپیش موجود بحران کا واحد حل یہ ہے کہ حکومت اور اپوزیشن میں نئے الیکشن کروانے یا ان کی تاریخ کا تعین ہو جائے، مثلاًیہ کہ چھ ماہ بعدنیا الیکشن کروا دیا جائے گا۔ اس سےنہ صرف پاکستان میں جاری سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہو گابلکہ ڈالر کا ریٹ بھی کم ہو جائے گا اور عالمی مالیاتی اداروں کو بھی پاکستان کے ساتھ ڈیل کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔

موجودہ حالات میں اگر حکومت اور اپوزیشن کے مابین اتفاق رائے نہ ہوا تو اس سے ملک کو ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کرنا پڑ سکتاہے۔ یہاں اس بات کو دہرانا بھی ضروری ہے کہ معاشی محاذ پر گزشتہ حکومت کی کامیابیوں کا اعتراف خود موجود حکومت کی طرف سے جاری کئے گئے اقتصادی سروے میں کیا گیا تھا۔ اقتصادی سروے کے مطابق گزشتہ حکومت کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ گزشتہ مالی سال میں جی ڈی پی کی شرح میں چھ فیصد ترقی ریکارڈ کی گئی۔

یہ بات بھی اس لحاظ سے اہم ہے کہ گزشتہ حکومت نے کورونا کی وبا اور عالمی سطح پر کساد بازاری کے باعث جی ڈی پی کا ہدف 4.8 فیصد مقرر کیا تھا۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ کسی حکومت نے جی ڈی پی میں طے شدہ ہدف سے زیادہ ترقی کا ریکارڈ قائم کیا ۔ اسی طرح گزشتہ مالی سال کے دوران پہلی مرتبہ پاکستان کی برآمدات 31ارب ڈالر سے زائد رہیں جو مقررہ ہدف سے تقریباً چار ارب ڈالر زیادہ ہیں۔ اسی طرح زرعی شعبے کی پیداوار میں اضافہ بھی 3.5 فیصد کے ہدف کی نسبت 4.4فیصد رہا جبکہ صنعتی شعبے کی پیداوار 6.6فیصد کے ہدف کی نسبت 7.2فیصد ریکارڈ کی گئی۔ علاوہ ازیں خدمات کے شعبےمیں اضافہ4.7فیصد ہدف کی نسبت 6.2فیصد ریکارڈ کیاگیا جبکہ مجموعی سرمایہ کاری 16.1فیصد ہدف کے مقابلے میں 15.1فیصد رہی۔برآمدات میں اپنے 61.24 فیصد شیئر کی وجہ سے ٹیکسٹائل کے شعبے کو نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔ یہ شعبہ صنعتی ویلیو ایڈڈ مصنوعات میں تقریباً ایک چوتھائی حصہ ڈالتا ہے اور صنعتی لیبر فورس کے تقریباً 40 فیصد کو روزگار فراہم کرتا ہے۔

متذکرہ بالا اعدادو شمار کی بنیاد پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ حکومت نے کورونا کی وباء ، عالمی کساد بازاری اور ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کے باوجود مثالی کارکردگی کا مظاہر ہ کیا۔ ایسے میں موجودہ حکومت کو گزشتہ حکومت پر ملک کو دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچانے کے الزامات لگانے کی بجائے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کیلئے گزشتہ حکومت کی کامیابیوں کو تسلیم کرنا چاہئے ۔ یہ اقدام اس لحاظ سے بھی ضرور ی ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف جب قومی اسمبلی میں قائدِ حزب اختلاف کے عہدے پر فائز تھے تو وہ خود میثاق معیشت کرنے کی تجویز پیش کر چکے ہیں اور وزیر اعظم بننے کے بعد بھی وہ اپنے مختلف بیانات میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں کہ وہ معاشی محاذ پر سیاسی مخالفین کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہاں ہیں۔ایسے میں ان کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تحریک انصاف سے سیاسی ڈائیلاگ کا آغاز کرنے میں پہل کریں اور عام انتخابات کے حوالے سے ان کے جو بھی خدشات یا مطالبات ہیں ان پر ٹھوس یقین دہانیاں کروائی جائیں تاکہ ملک میں جاری سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ ہو سکے۔

یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ پاکستان اس وقت جن حالات سے دو چار ہے اگر تجارت کے درآمدی اور برآمدی فرق پر قابو نہ پایا گیا تو آنے والے مہینوں میں صورتحال موجودہ حالات سے زیادہ گمبھیر ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔ حکومت معیشت کو دیوالیہ پن سے بچانے کے لئے جو کوششیں کررہی ہے ، بہتر ہوگا کہ برآمدی شعبے کی صورتحال کا بنظر غائر جائزہ لیتے ہوئے وہ تمام نقائص دورکرے جو برآمدی اہداف پورا کرنے میں رکاوٹ ہیں۔

تازہ ترین