• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان نے پٹرولیم مصنوعات کے نرخوں میں ردوبدل کرتے ہوئے آئی ایم ایف کی ایک کے سوا تمام شرائط پوری کر دی ہیں جس سے توقع کی جا سکتی ہے کہ عالمی مالیاتی ادارہ 6ارب ڈالر کی ساتویں اور آٹھویں قسط کے اجرا کا عمل جلد شروع کر دے گا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے ایک پریس کانفرنس میں پٹرول کی قیمت میں 3روپے 5پیسے کی علامتی کمی کرنے کے ساتھ ہی پٹرولیم لیوی میں دس روپے فی لیٹر اضافے کا بھی اعلان کیا۔ ہائی سپیڈڈیزل کے نرخ میں8 روپے 9پیسے اور زیادہ تر غریبوں کے استعمال میں آنے والے مٹی کے تیل کی قیمت میں 4روپے 62پیسے فی لیٹر اضافہ کیا گیا ہے۔ لائٹ ڈیزل میں 12پیسے کمی بھی اعلان کا حصہ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر کوئی سیلز ٹیکس نہیں لگایا گیا لیکن آئی ایم ایف سے طے شدہ شرائط کے تحت پٹرولیم لیوی کو 20روپے سے بڑھا کر بتدریج 50روپے فی لیٹر پہنچایا جائے گا۔ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ آئندہ 15روز کی بجائے ہر ہفتے یا دس دن بعد پٹرولیم کی قیمتوں میں رد وبدل کیا جائے اس سے نرخوں میں اضافے کا زیادہ امکان ہے حالانکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مسلسل گر رہی ہیں۔ قیمتوں میں اس ردوبدل سے مہنگائی کو نئے پر لگ سکتے ہیں۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ حکومت کا مانیٹرنگ نظام ناقص ہونے کی وجہ سے قیمت کم ہو تو بھی ٹرانسپورٹر کرائے کم نہیں کرتے جبکہ معمولی اضافہ ہو توبڑھانے میں تاخیر نہیں کرتے، وزیر خزانہ نے دکانداروں کی ناراضی دور کرنے کیلئے 150یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کی اشک شوئی کے طور پر فکسڈ ٹیکس معاف کر دیا ہے جو ایک اچھا قدم ہے۔ دس فیصد ایکسپورٹ نہ کرنے والی مینوفیکچرنگ کمپنیوں پر اگلے سال سے 5فیصد اضافی ٹیکس عائد کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ یہ برآمدات بڑھانے اور کرنٹ اکائونٹ خسارہ سرپلس کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ تجارتی خسارہ کم کرنے کیلئے درآمدات کم کی گئی ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی برآمدات میں بھی 25فیصد کمی آئی ہے جو ملکی معیشت کیلئے نیک فال نہیں ہے۔ وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومتی اقدامات کے نتیجے میں مہنگائی بڑھی ہے مگر ہم نے مشکل فیصلے کر کے ملک کو ڈیفالٹ سے بچایا ہے۔ وزارت خزانہ اور ا سٹیٹ بینک کے مطابق زرمبادلہ کے ذخائر کم ہونے کی بڑی وجہ آمد زر کی نسبت زر کا انخلا زیادہ ہونا ہے۔ اگر چہ وزیر خزانہ نے تسلی دی ہے کہ جلد ڈالر کے مقابلے میں روپے پر دبائو کم ہو جائے گا لیکن یہ معجزہ ہی ہو سکتا ہے کیونکہ بڑھتے ہوئے بیرونی قرضوں اور ادائیگیوں کے عدم توازن نے روپے کو بہت کمزور کر دیا ہے۔ اس کی قدر بحال کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ آئی ایم ایف سے قرضے کی نئی اقساط اور بعض دوست ملکوں سے ڈالروں کی آمدسے روپے کی قدر میں عارضی استحکام تو آسکتا ہے لیکن اسے برقرار رکھنے کیلئے حکومت کو مزید بہت سے اقدامات کرنا ہوں گے جو سیاسی بے یقینی کے موجودہ ماحول میں بار آور ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔ سیاسی افراتفری اور رسہ کشی کے باعث اسٹاک مارکیٹ مسلسل گراوٹ کا شکارہے۔ حکومت اور اپوزیشن کی ساری توجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے پر مرکوز ہے۔ ترقیاتی سرگرمیاں تقریباً ٹھپ ہو چکی ہیں۔ اوپر سے غیر معمولی بارشیں بلوچستان سمیت پورے ملک میں انفراسٹرکچر کی تباہی کے علاوہ سیکڑوں انسانی جانوں کی بھینٹ لے چکی ہیں اور کھربوں روپے کے نقصانات سامنے آ ر ہےہیں جن کی تلافی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایسے حالات میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اشیائے خوردونوش کی مہنگائی اور بیروزگاری عام آدمی کیلئے ناقابل برداشت ہے۔ حکومت کو تو بہتری کی تدابیر اختیار کرنا ہی ہیں اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ میثاق معیشت کیلئے حکمرانوں کے ساتھ مل بیٹھے۔

تازہ ترین