• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کے سہ رکنی بینچ نے عام توقعات کے برخلاف پارٹی پر پابندی ،رجسٹریشن کی منسوخی یا گرفتاریوں کی بجائے شوکاز نوٹس جاری کیا ہے کہ کیوں نہ اس کے غیرقانونی اور غیرآئینی طریقوں سے حاصل کئے ہوئے فنڈز ضبط کرلئے جائیں؟۔ چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں قائم بینچ نے88صفحات پر مشتمل فیصلے میں پی ٹی آئی کو 34 غیرملکی شخصیات جن میں ایک بھارتی بھی شامل ہے اور 351 غیرملکی کمپنیوں اور کاروباری اداروں سے ممنوعہ فنڈنگ وصول کرنے کا مجرم قرار دیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پارٹی ان رقوم کے قانونی ہونے کا ثبوت پیش نہیں کرسکی۔ پارٹی کے سربراہ عمران خان نے فنڈنگ کے حوالے سے جو بیان الیکشن کمیشن میں جمع کرایا وہ غلط تھا اور اس کی تائید میں جو حلف نامہ داخل کیا وہ بھی جھوٹا تھا۔ یہ مقدمہ پارٹی کے بانی رکن اکبر ایس بابر نے 2014 میں دائر کیا تھا جس کا فیصلہ ہونے میں 8 سال لگ گئے۔ اس دوران پی ٹی آئی نے مقدمے کو طول دینے کے لئے بارہا وکیل بدلے اور بار بار التوا مانگا۔ کمیشن نے معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک سکروٹنی کمیٹی قائم کی تھی جس کی رپورٹ کی روشنی میں مقدمہ چلایا گیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پارٹی نے ممنوعہ فنڈنگ کے 16 اکاؤنٹ چھپائے۔ ممنوعہ فنڈز کی وصولی آئین کے علاوہ پولیٹکل آرڈر کی بھی خلاف ورزی ہے۔ سہ رکنی بینچ نے الیکشن کمیشن کو فیصلے کی کاپی وفاقی حکومت کو بھیجنے اور دیگر قانونی اقدامات کا حکم دیا ہے۔ آئین کے تحت کمیشن کا یہ فیصلہ حتمی ہے اور اس کی روشنی میں حکومت پی ٹی آئی کے خلاف سپریم کورٹ ریفرنس بھیج سکتی ہے۔ ممنوعہ فنڈنگ کرنے والی شخصیات اور کاروباری اداروں کا تعلق امریکہ، برطانیہ ، آسٹریلیا، متحدہ عرب امارات، بھارت اور کینیڈا سے بتایا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے فیصلے کی نفی کی ہے تاہم اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمارے فنڈز قانونی ہیں جبکہ مخالفین نے فیصلے کے تناظر میں عمران خان کے صادق اور امین ہونے پر حرف گیری کی ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کی سٹوری سے بھی ثابت ہوگیا ہے کہ پی ٹی آئی ابراج سمیت کئی غیرملکی کمپنیوں اور شہریوں سے غیرقانونی طور پر پیسے لیتی رہی ہے جنہیں الیکشن کمیشن میں جمع کرائے جانے والے گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا گیا۔ عمران خان اور ان کے ساتھی ایک عرصہ سے الیکشن کمیشن خصوصاً چیف الیکشن کمشنر کی غیرجانبداری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کے استعفے اور نیا کمیشن بنانے کے لئے مہم چلارہے ہیں۔ اس دوران ان پر رکیک حملے بھی کرتے رہے۔ اس کے علاوہ وہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ایک ادارے پر بھی حرف زنی کرتے رہے مگر ان اداروں کی طرح الیکشن کمیشن نے بھی صبروتحمل سے کام لیا اور ممنوعہ فنڈنگ کا فیصلہ خالص قانونی اور آئینی شواہد اور نکات پر کیا۔ اگر فیصلے کو چیلنج کیا جاتا ہے تو ہوسکتا ہے مزید حقائق بھی سامنے آئیں تاہم کمیشن کے تفصیلی فیصلے میں کیس کے بہت سے گوشے بے نقاب ہوچکے ہیں۔ خود پی ٹی آئی نے بھی فیصلے پر روایتی اشتعال انگیزی سے اجتناب کیا ہے اور اصرار اس بات پر کیا ہے کہ دوسری پارٹیوں کے فنڈنگ معاملات پر بھی کارروائی کی جائے جو انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے سیاسی پارٹیاں قوم کی رہبر کا درجہ رکھتی ہیں ۔ ان کے اقدامات، ان کا قول وفعل ہرطرح کے شکوک وشبہات سے پاک ہونا چاہئے۔ توقع ہے کہ اس حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ سب کی رہنمائی کرے گا اور عمران خان نے جمعرات کو کمیشن کے دفاتر پر مظاہروں کا جو پروگرام بنایا ہے اسے روک لیا جائے گا۔

تازہ ترین