• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے موجودہ سیاسی و معاشی حالات کو دیکھا جائے تو یوں لگتا ہےکہ جیسے مایوسی ہمارے در و دیوار پر اتر آئی ہے۔اچھی خبر سننے کو کان ترس ہی گئے ہیں۔ادارے تباہ حال ہیں اور عوام کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔سیاست کے بیاباں میں دشنام طرازی کا دور دورہ ہے۔عدلیہ اور مقننہ باہم متحارب ہیں۔عسکری قیادت معاشی سلامتی کے لیے دوڑ دھوپ میں مصروف ہے۔ملکی کرنسی بد حال اور ڈالر بے لگام ہے۔معاشی دیوالیہ پن کی منحوس صدائیں بھی کانوں تک پہنچ رہی ہیں۔مہنگائی کے مارے عوام سیلاب اور بارش کی تباہ کاریوں سے بار بار مر رہے ہیں۔سیاست میں استحکام ہے اور نہ معیشت میں۔گزشتہ چار مہینوں میں کیا سے کیا ہو گیا۔اقتدار کی کشتی پر سوار تحریک انصاف،بیچ منجدھار میں ڈوب گئی اور پھر اسی کشتی کو ڈبونے والے اسی گرداب میں غرقاب ہیں۔سیاست کے بازار میں تحریک انصاف کے سکے کا چلن ہے جب کہ حکمران اتحاد کی وہی حالت ہے جو بازار میں روپے کی ۔ملک کی اسٹاک ایکسچینج کی نبضیں ڈوب رہی ہیں۔ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہے پوری حکومت میں ایک بھی رجل رشید نہیں جو آگے بڑھ کر حالات کو سنبھالا دے،جو عوام کو دلاسا دے،سرمایہ کار کی پیٹھ ٹھونکے،ڈالر کو قابومیں رکھنے کی سبیل کرے؟

موجودہ وزیر اعظم کے دور حکومت میں عوام کا کھانا پینا محال ہو گیا ہے جن کے والد محترم انہیں نصیحت فرماتے تھے کہ جیسے بھی حالات ہوں اشیائے خورونوش کو مہنگا نہیں کرنا'۔آج کھانے پینےکی ہر چیز عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوچکی ہے۔دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ موجودہ حالات پی ڈی ایم کی حکومت کے اپنے پیدا کردہ نہیں۔عمران خان نے ملک کو جس معاشی دلدل میں پھینک دیا تھا اس سے نکلنے کا راستہ آسان نہیں ،آئی ایم ایف سے کئے گئے وعدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے انہوں نےایسے معاشی اقدامات کئے جس سے گویا کہ معیشت میں بارودی سرنگیں بچھا دی گئیں،جن حالات میں شہباز شریف وزیراعظم بنے اس وقت میاں نواز شریف بجا طور پر یہ حکومت قبول کرنے کے حق میں نہ تھے۔مفتاح اسماعیل نے نواز شریف کو بتایا تھا کہ ڈالر صرف 30 روپے مہنگا ہوگا لیکن اب ڈالر 80روپے سے زیادہ مہنگا ہوگیا۔ان تلخ حقائق کے باوجود یہ بھی سچ ہے کہ دنیا کا کون سا ملک ہے جس پر مشکل وقت نہیں آیا۔ لیکن ملک کی سیاسی قیادت نے عوام کو اعتماد میں لیا اور ملک کو مشکل سے نکالا، 1987میں شمالی کوریا کی معیشت دیوالیہ ہوئی۔روس 1998میں دیوالیہ ہوا۔ 1994میں میکسیکو نے دیوالیہ ہونے کا اعلان کیا۔ 2015میں یونان دیوالیہ ہوا۔2017میں وینزویلا دیوالیہ ہوا۔آج کی معلوم تاریخ میں لگ بھگ 146 ایسے ممالک ہیں جو مختلف اوقات میں معاشی بدحالی کا شکار ہوکر دیوالیہ ہوئے۔ کیا یہ ممالک صفحہ ہستی سے مٹ گئے،؟ہر گز نہیں۔ ان مواقع پر ان ممالک کی سیاسی قیادت نے بیدار مغزی کا ثبوت دیتے ہوئے اپنی قوم کو اعتماد میں لیا۔قوم کو سچ بتایا اور ملک کو اس معاشی گرداب سے نکال لیا۔ترکی جسے یورپ کا مرد بیمار کہا جاتا تھا،فعال اور بہادر قیادت کے سبب آج ایک ترقی یافتہ ملک بن چکا ہے۔آج پاکستان کے حالات ان ممالک سے مختلف نہیں لیکن ہماری سیاسی قیادت ان سے مختلف ہے۔ان ممالک نے معاشی بدحالی کے دور میں اپنے سیاسی اختلافات بھلا کر مل کر چلنے کا عزم کیا اور ہماری سیاسی قیادت باہم دست وگریباں ہے۔ ہماری سیاسی قیادت عوام سے سچ چھپاتی ہے۔عوام کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔ورنہ جس دو بلین ڈالرکیلئے حکومت آئی ایم ایف کے سامنے ناک رگڑ رہی ہے، اگر تارکینِ وطن کو ہی اعتماد میں لے لے تووہ 2.5بلین ڈالر ماہانہ بھیج کر معیشت کو سہارا دے سکتے ہیں۔ان حالات میں حکومت کی بے بسی اور نااہلی دیکھ کر ایسا لگ رہا ہے کہ میاں شہباز شریف نے اپنا 35سالہ سیاسی کیریئر دریا برد کردیا ہے۔معاشی بدحالی کے اس سیلاب میں جہاں شہباز شریف کی شخصیت تہ آب چلی گئی ہے وہیں مسلم لیگ ن بھی اس سیلاب میں بہتی دکھائی دے رہی ہے۔ہچکولے کھاتی معیشت کی کشتی سنبھل سکتی تھی، اگر عالمی طور پر تسلیم شدہ ماہر اقتصادیات اسحاق ڈار پاکستان آتے اور اس کشتی کےناخدا بنتے۔ مسلم لیگ ن جسے میاں نواز شریف نے طویل محنت کے بعد ایک سیاسی جماعت بنایا اس کا سیاسی مستقبل صرف اسی صورت میں محفوظ ہوسکتا تھا اگر میاں نواز شریف خود پاکستان آتے اور اس کی قیادت کرتے۔ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ چکا ہے۔بھٹو او ر نواز شریف کے بعد اب عمران خان نے سیاست کی نئی طرز متعارف کرا دی ہے۔سوشل میڈیا کی طاقت نے رائے عامہ تشکیل دینے کےادارے تبدیل کر دیے ہیں۔ اب پرانا طرزِ سیاست اختیار کرنے والی جماعتیں ماضی کی بوسیدہ کتاب کا ایک باب بن کر رہ جائیں گی اور ماضی میں رہنے والے لیڈر محض ایک المیہ کردار۔پاکستانی معیشت کو سہارا دینے کیلئے اختلافات کو بالائے طاق رکھ وسیع البنیاد ڈائیلاگ کرنا ہو گا جو اسٹیبلشمنٹ کے علاؤہ کوئی ادارہ نہیں کرا سکتا۔ دوسری طرف پاکستان کا ایک بڑا حصہ سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔جنوبی پنجاب، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں میں بارشوں نے انفراسٹرکچر تباہ کردیا ہے۔جانی و مالی نقصان کا اندازہ ابھی تک نہیں ہوسکا۔ معصوم بچوں کی تیرتی ہوئی لاشوں نے پورے سماج کے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کیا ہے۔دور دراز تباہ حال علاقوں میں مسلح افواج کے جوان اورمسلم ہینڈز انٹرنیشنل کے رضا کار عملی طور پر کام کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔مسلم ہینڈر کے تربیت یافتہ رضاکار خدمت کی نئی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔ سیلاب زدہ علاقوں میں سول انتظامیہ خود بھی مسائل کا شکار ہے۔ان حالات میں حکومت کے ساتھ دیگر فلاحی تنظیموں کوبھی آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہئے، بلوچستان کے متاثرین خصوصاًآپ کی راہ دیکھ رہے ہیں۔

تازہ ترین