• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ اپنے مستقبل سے ملنے، ڈھیروں باتیں کرنے، ان کے ذہنوں میں سوالات کے طوفان کو باہر نکلنے کا موقع دینے کا دن۔ دوپہر کے کھانے پر اطمینان سے تبادلۂ خیال ہو۔ ارد گرد سیلاب ہیں۔ اتنے بحران ہیں۔ بڑے بڑے عہدوں پر متمکن لوگ ایک دوسرے پر الزامات عائد کررہے ہیں۔ اداروں میں ریفرنس داخل کئےجارہے ہیں۔ میڈیا پر ایک ہیجان برپا ہے۔ یہی ہمارے مستقبل کے مکیں Future Residents جب سوشل میڈیا پر دوسرے ملکوں میں سکون، استحکام اور آگے بڑھنے کی تدابیر دیکھتے ہیں تو ان کی بے قراری میں مزید شدت آجاتی ہے کہ وہاں بھی انسان ہی ہیں جنہوں نے رہنے سہنے کیلئے ایک سسٹم بنالیا ہے۔ قواعد و ضوابط متعین کرلئےہیں۔ ملک کا سربراہ ہو، وزیر ہو، سیکریٹری، دولت مند، کارخانے دار، چیف ایگزیکٹو افسر، وہاں کوئی سوچتا بھی نہیں ہے کہ سسٹم کی ذرا سی بھی خلاف ورزی ہو۔

ایک دوسرے پر ایسے ایسے الزامات لگائے جا رہے ہیں کہ عام آدمی کو کوئی ایماندار حکمران ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا۔ معیشت انتہائی بد حال ہوگئی ہے۔ زرِ مبادلہ کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ دیوالیہ ہونے کے خدشات ظاہر کئےجارہے ہیں۔ ہم بھارت کے جبر و استبداد کا مقابلہ کرنےوالے مظلوم کشمیریوں کی عملی امداد کیا کرتے، اپنی بقا کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ آزادی کے 75ویں سال میں یہ انتشار،بد حالی کیوں؟ کہیں یہ دکھ بھی دکھائی نہیں دیتا کہ ہم ڈائمنڈ جوبلی (جشنِ الماسی) آدھے پاکستان میں منارہے ہیں۔ 1947میں انگریز اور ہندو کی غلامی سے ہم نے جو آزاد ملک دوبازوئوں کے ساتھ حاصل کیا تھا، اس میں سے اکثر حصّہ ہم سے الگ ہوکر بنگلہ دیش بن چکا۔ کہیں اس پر ندامت، پشیمانی نظر نہیں آتی، جن رویوں،پالیسیوں، نا انصافیوں، عاقبت نا اندیشوں کے سبب اکثریتی حصّے میں بے چینی پیدا ہوئی۔ پاکستان کے قیام کے لئے حقیقی جدو جہد کرنے والے، مسلم لیگ کو جنم دینے والے تو وہ تھے۔ وہ ہماری جن حرکتوں کی وجہ سے الگ ہوئے۔ اب بھی ہمارے حکمران طبقے اور مقتدر قوتوں میں وہی رعونت، وہی تکبر ہے۔ تمام ناکامیوں کے بعد اب بھی وہ اپنے آپ کو عقلِ کل سمجھتے ہیں۔ معاشرہ بکھر رہا ہے۔ کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے جارہے ہیں۔ ان کی اقتدار کیلئے ہاتھا پائی جاری ہے۔ ان کے بلاول ہائوسوں، جاتی امرائوں ، بنی گالائوں میں توسیع ہورہی ہے، اکثریت کے لئےزمین تنگ ہورہی ہے۔

بھارت میں بھی حکمراں طبقوں میں اختلافات ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے سے تصادم بھی۔ لیکن پاکستان کے بارے میں وہ سب ایک ہیں۔ کشمیریوں کو حق خود ارادیت نہ دینے پر وہ سب متفق ہیں۔ بھارت 1947سے پاکستان میں فرقہ واریت، صوبائیت، علیحدگی پسندی کو باقاعدہ ہوا دیتا آرہا ہے۔ پانی کے ذخیرے خود بنارہا ہے۔ لیکن پاکستان میں کالا باغ ڈیم اور دوسرے بڑے ڈیموں کی تعمیر کے خلاف احتجاج کی سرپرستی کرتا ہے۔ 75ویں سال میں آدھا پاکستان اقتصادی طور پر کتنا کمزور ہے۔ سیاسی طور پر کتنا تقسیم ہے۔ پاکستانی اپنے وسائل کو دریافت نہیں کررہے۔ ریکوڈک کی طرح جو دریافت شدہ ہیں۔ ان کو اندرونی اور بین الاقوامی تنازعات میںالجھادیا گیا ہے۔

میں تو دو سال سے ڈائمنڈ جوبلی کے لئے قارئین کو ذہنی طور پر آمادہ کررہا تھا۔ اور لوگ بھی میرے ہم آواز تھے۔ مگر انتشار پھیلانے والی عالمی اور ملکی طاقتوں کے سامنے تو ہماری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ہماری قیادت کا دعویٰ کرنے والے اپنی انا، اپنی املاک کے مقابلے میں ریاست کی بقا سے دلچسپی نہیں رکھتے۔ سب اپنے اپنے مفادات کے تحفظ میں مست ہیں۔ ملک کے وسائل کو اپنےلئے استعمال کررہے ہیں۔

ہم بھول گئے ہیں وہ ریل گاڑیاں جو بھارت سے لاشیں لے کر لاہور پہنچ رہی تھیں۔ ہمیں وہ قافلے یاد نہیں رہے جو بیل گاڑیوں پر پیدل کئی کئی میل کی مسافتیں طے کرکےقصور پہنچ رہے تھے۔ ہم نے وہ ٹرینیں بھی فراموش کردی ہیں جو کھوکھرا پار مہاجرین کو لے کر آرہی تھیں۔ لسانی کشیدگی پھیلاتے وقت وہ مناظر ہمارے ذہن میں نہیں آتے۔ جب سندھ میں بڑے معزز گھرانوں نے اپنے گھر اور دل لٹے پٹے مہاجرین کے لئے کھول دیے تھے۔

ہم ان خاندانوں کو بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ جنہوں نے قائد اعظم کے حکم پر اس نوزائیدہ ملک میں بینک کھولے، کارخانے لگائے، انہیں ان کے اپنے روک رہے تھے کہ اس ملک کی بقا یقینی نہیں ہے، لیکن وہ آدم جی، داؤد، رنگون والا، ولیکا، حبیب، وہ پارسی خاندان، آفندی، قاضی خاندان، تالپور، ہمدرد، سرحد کے غلام فاروق، مشرقی بنگال کے معزز خاندان، جنہوں نے انتہائی نامساعد،غیریقینی حالات میں اپنا سرمایہ پاکستان کی صنعت و تجارت میں لگادیا، جنہوں نے تعلیمی ادارے قائم کئے۔ یونیورسٹیوں کی بنیاد رکھی۔

75ویں سال میں یہ سانحے کیوں ہیں۔ یہ انارکی کیوںہے؟ آپس میں لڑتے سیاسی رہنما ایک لمحے کیلئے بھی کیوں یہ نہیں سوچتے کہ انہیں آپس میں کون لڑوارہا ہے؟ ان کی ساری صلاحیتیں، ساری طاقت، ایک دوسرے سے نبرد آزمائی میں کیوں ضائع ہورہی ہے، یہی اہلیت اور تدبر اس ملک کی اقتصادی پیش رفت کیلئے کیوں استعمال نہیںہوتا۔ ہمارے حکمراں طبقے، ہمارے خوشحال خاندان، ہمارے صنعت کار، ہمارے ماہرین کیوں فکر نہیں کرتے؟ وہ کون سی اندرونی اور بیرونی طاقتیں ہیں جو پاکستان کو یوں ہی دلدل میں دھنسا دیکھنا چاہتی ہیں، جن کی پوری کوشش یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان یوں ہی معلق رہے۔ پاکستان کی سر زمین کے پاس سب کچھ ہے۔ سمندر، پہاڑ،دریا، وادیاں،زرخیز زمینیں، سونا تانبا، قیمتی پتھر اور نہایت ذہین نوجوان، نہایت جفاکش انسان، جو دوسرے ملکوں میں جاکر ان کی تقدیر بدل دیتے ہیں۔ پاکستان کے وسائل اور پاکستانیوں کی اہلیت کار کی توثیق عالمی ادارے کرتے ہیں۔ اقتصادی ماہرین کرتے ہیں۔ پھر کون ہے ایسا سسٹم نہیں بننے دیتا، جس میں قانون کا نفاذ سب کیلئے یکساں ہو۔ وقت ضائع ہورہا ہے،صلاحیتیں بے مصرف ہیں۔ میٹھا پانی اور 60فی صد نوجوان آبادی قوم کی خوشحالی کی بجائے تباہی اور بربادی کا سبب بن رہی ہے۔

آنے والا اتوار 75ویں 14اگست لے کر آئے گا۔ تاریخ کا اہم موڑ، ٹیکنالوجی اور سسٹم والی اکیسویں صدی میں ایک ایک لمحے کی بڑی اہمیت ہے۔ کیا ہم سب مل کر 14اگست مناسکتے ہیں۔ قوم کے سامنے صرف پاکستانی کی حیثیت سے ہاتھ میں ہاتھ دے کر ایک نظر آسکتے ہیں؟

ہم فوجی آمریت، جمہوریت، شراکت میں اقتدار، صدارتی نظام، پارلیمانی نظام، آئین کو سرد خانے میں ڈالنے، دوسروں کی جنگ میں اپنے فوجیوں، شہریوں کو شہید کروانے، اربوں ڈالر قرضے لینے کے سارے تجربے کرچکے ہیں۔ اب ایک پاکستانی ہونے کا تجربہ بھی کرلیں۔

تازہ ترین