• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’مے کدے سے جو بچ نکلتا ہے، تیری آنکھوں میں ڈوب جاتا ہے‘‘ پاکستان کی خوشحالی سے کسے پیار نہیں، کون پاکستان کی معیشت کو پھلتا پھولتا نہیں دیکھنا چاہتا ؟ آخر لوگ زرداری اور میاں کے خلاف خان کے ساتھی کیوں بنے؟ کیوں اکثر نوجوان ، کے پی اورقانونی و غیر قانونی افغان کیوں خان کو آنکھ کا تارا سمجھتے ہیں، کراچی کا پختون اے این پی اور دیگر پارٹیوں کو خیرباد کہہ کر خان کے ہم رکاب کیوں ہوگئے؟ دیارِ غیر میں بسنے والوں کی پذیرائی راتوں رات تو نہیں ملی، سر جی کیسے خان کی اقلیت کو اکثریت میں بدلنے والے بنے؟

یہ وہ چند سوالات ہیں جن کے اندر ہی جوابات ہیں کیسے خان سیاست ،فرش سے عرش پہ پہنچی ، کیسے سیاست کی کیمسٹری و ہسٹری بدلی، کیسے جنوبی پنجاب کے لیڈران صوبہ محاذ کے نام پر سابقین چھوڑ کر 'تحریکِی زلف کی اسیر ہوئے؟

پہلی بات ، جب تک بے نظیر زندہ تھیں، خان لیڈر تسلیم نہ ہوئے، نواز شریف اور بے نظیر کے علاوہ کسی کو قومی سطح پر لیڈر تسلیم نہ کیا گیا، جنرل مشرف نے پوری کوشش کی کہ، جمالی، شوکت عزیز اور چوہدری شجاعت کو لیڈر بنایا جاسکے مگر یہ سب نہ ہوا۔ آمروں کے صاحبزادوں کو زعم تھا، نواز شریف ہمارے باپوں کے سبب مقبول تھا سو انہوں نے چھوڑ کر اور ایک نئے جرنیل کی چھتری تلے جاکر دیکھ لیا، کچھ نہ ہوا۔ عوام کے اس دھڑے نے جو بھٹو مخالف تھا اس نے یقین کرلیا تھا بھٹوز کامقابلہ صرف شریف ہیں! پنجاب کو مقتدر نے ایک زیرک وزیرِ اعلیٰ دیا جس نے ترقیاتی کام بھی کئے مگر پرویز الٰہی کو 2002 تا 2008 بلاشرکت غیرے اقتدار نے بھی شریف متبادل ثابت نہ کیا، پنجاب کے نزدیک پھر دو باتیں تھیں (1) بھٹو خاندان کے مقابلے، اور (2) ترقیاتی کاموں کی ضمانت صرف شریف ! نوے کی دہائی اور 2010 کے ماہ و سال جنہوں نےخان کو ورلڈ کپ اٹھائے دیکھا یا سلیبرٹی پایا اُس دور اور اُس نسل نے خان کو لیڈر نہیں مانا۔ یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ بی بی کے ہوتے ہوئے آج کے جید سیاست دان آصف زرداری کو بھی کوئی نہ مانتا تھا۔

پھر کیا ہوا؟1- کچھ سیاستدان بی بی اور نوازسے چونکہ بار بار جُڑچُکنے اور چھوڑنے کی بنیاد پر ایکسپوز ہوچکے تھے چنانچہ ان کی دال نہیں گّل رہی تھی سو تیسرا آپشن خان ہی تھا۔ 2- بعض سیاستدانوں کا بی بی و نواز مناپلیوں میں پنپنا مشکل تھاان کیلئے خان سہارا ہی ضروری تھا۔ 3- کئی دنیا تو چھوڑ سکتے ہیںاقتدار نہیں اور انہیں حکم ملاخان ہی آنا اور اسے ہی لانا ہے۔ 4- میڈیا شریف اور بےنظیر یا زرداری کو مقابل کرپشن کا ذمہ دار ٹھہراتا رہا، گھر اور دیارِغیر میں بیٹھے غیرسیاسی لوگ اور نوجوان تیسری قوت کی طرف چل نکلے۔ 5- گلوبل ولیج کا تصور اور سماں سامنے آنے پر نئی نسل نے خان سے امیدیں باندھ لیں۔ اور، خان یہ 5 باتیں اور کچھ 'اضافت کو لے کر آگے بڑھا اور پچھلی 15 سالہ ناکامیوں کی گٹھڑی دریا برد کرکے نیا سودا اُٹھا کر 2010 تک جا پہنچا۔

خان کے پاس 11 رُکنی ٹیم مکمل تھی: حُسن، مقبولیت، گفتگو، مقتدرہ، عوامی فرسٹریشن کا ہتھیار، مخالفین کی کمزوریاں، میڈیا، نوجوان، بین الاقوامیت ، تندرستی اور نظریہ ضرورت کا متبادل ،یو ٹرن۔ یہ سب اسے سیاسی ورثہ میں ملا اگر تھوڑا سا پَلے سے ڈال لیتا تو صرف پاکستانی وزیرِ اعظم نہیں اقوام متحدہ کا سیکرٹری جنرل بھی بن سکتا تھا۔ مگر ضد، تکبر، کانوں کے کچے ہونے، بار بار فلسفہ بدلنے، مخالف کو برداشت نہ کرنے اور بےپر کی اڑانے،علاوہ بریں ضرورتاً اسلامی ٹچ، ضرورتاً نیازی و افغانی و پختون ٹچ ، کبھی ریاستِ مدینہ، کبھی چینی، کبھی ترکی اور کبھی ملائشین ٹّچ نے پاکستان سے ایک عظیم ریفارمر چھین لیا۔ رہی سہی کسر اوورایکٹر ساتھی فیکٹرز نے نکال دی ورنہ عمران کی عمرانیات بھرپور تھی۔ماحول، تاریخ، فرسٹریشن اور چیلنج سب ساتھ تھے وہ کاش مقبولیت کا نشہ،چندہ بٹور نیچر اور ایزی منی کی اِڈِکشن ساتھ نہ ہوتی! چیلنجر بھی کمال تھا مگر اسٹیٹس مین کے جمال کا فقدان نکلا۔ اور اوپر سے یہ فارن فنڈنگ۔۔۔۔

ایک سوشیالوجسٹ، یونیورسٹی میں پروفیسر بھی کسی اور کے ریفرنس سے دلیل دیتے ہیں: آئی ایم ایف کی مدد کیلئے جرنیل فون کرے ، مساجد و مدارس کا چندہ فارن سے لیں ، فلاحی ادارے فارن فنڈنگ پر چلیں تو سب درست مگر پی ٹی آئی چلے تو بُرا ۔۔۔۔ بھائی! 1- کوئی گھر ریاستی امور چلاتا، قانون و آئین کی پاسداری کی تلقین کرتا یا اس پر حلف نہیں لیتا. 2- فلاحی ادارے اسٹیٹس مین یا قانون سازی کی ذمہ داری لیتے ہیں؟ 3- مساجد کے نمازی یا مُلا حکمرانی یا آئین چلاتا ہے؟ ان سب کی زندگی محدود یا پرائیویٹ حیثیت رکھتی ہے یا ریاستی؟ پلیجرزم بالائے طاق رکھتے ہوئے، اگر پی ٹی آئی یا آپ کو لگتا تھا فارن فنڈنگ برائی نہیں کل کو کسی دہشت گرد کے ہاتھ نہیں لگ سکتی تو آپ ہی کوئی ریسرچ پیپر یا تھیسس یا کم ازکم رپورٹ ہی شائع کرکے رہنمائی فرماتے کہ حکومت فارن فنڈنگ پر قانون سازی کرلیتی! یہی ایم کیو ایم یا خان عبدالغفار پر الزام ہوتا، تو کیا ہوتا ؟ سیاسی رومانس میں تو شاید سب جائز ہو مگر سوشل آداب، ریاستی امور ، تاریخ، تہذیب و ثقافت کو رومانس کے یہ شعلے بھسم کردیں گے!

جاتے جاتے، صرف دو باتیں: 1- کرکٹ کے سب پرستار اور کھیل برطانیہ میں مگر 99٪ "فارن فنڈنگ" امریکہ سے؟

بقول خانِ اعظم مغرب کو ان کے سوا کون جانتا ہے، لیکن مغربی لیڈر تو کم فہمی، جھوٹ یا کرپشن کےزمرے میں آجائیں، تو ذاتی جاہ اور حکومتی جلال چھوڑ دیتے ہیں، بہرحال خان صف اول کا لیڈر تھا آہ ! غلط بیانی نہ چھوڑ سکا!

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین