• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی چیئرمین عمران کو پریشان کیوں ہونا چاہئے؟

اسلام آباد (انصار عباسی) عمران خان کیخلاف بھلے ہی کرپشن کے بڑے اسکینڈل نہ ہوں لیکن توشہ خانہ اور فارن فنڈنگ جیسے کیسز سے عمران خان کو پریشان ہونا چاہئے کیونکہ سپریم کورٹ نے نواز شریف کو ان ہی وجوہات کی بناء پر نا اہل قرار دیا تھا۔ 

سپریم کورٹ نے جون 2017ء میں پانامہ کیس کا فیصلہ سنایا تھا جس کے نتیجے میں اُس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا اور انہیں تاحیات نا اہل قرار دیا گیا تھا۔ 

عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی نے اس فیصلے کو سراہا تھا لیکن اگر اِس فیصلے کے مندرجہ ذیل حصے پڑھیں تو معلوم ہوگا کہ اس فیصلے میں وہ تمام اجزائے ترکیبی موجود ہیں جو عمران خان کی پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ 

کئی لوگوں نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے کو خراب فیصلہ اور خراب مثال قرار دیا تھا لیکن فیصلے میں لکھا ہے کہ کیپیٹل ایف زیڈ ای جبل علی یو اے ای کے اثاثہ جات سے حاصل ہونے والی رقم جو اب تک حاصل نہیں کی گئی (un-withdrawn) لیکن اسے 2013 کے عام انتخابات کیلئے دائر کردہ کاغذات نامزدگی میں سیکشن (f) (2) 12 کے تحت ظاہر کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کیا گیا اور اس طرح جعلی ڈکلیریشن جمع کرانے پر میاں محمد نواز شریف آرٹیکل (f) (1) 62 کے تحت صادق نہیں رہے لہٰذا انہیں پارلیمنٹ کی رکنیت سے نا اہل قرار دیا جاتا ہے۔ 

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن نواز شریف کی نا اہلیت کا نوٹیفکیشن فوراً جاری کرے جس کے بعد وہ وزیراعظم پاکستان نہیں رہیں گے۔ بھلے ہی سپریم کورٹ کا فیصلہ متنازع تھا یا کئی طرح سے خراب سمجھا گیا لیکن اب یہ مثال قائم ہو چکی ہے اور اس طرح عمران خان کا کیس کا فیصلہ بھی سپریم کورٹ کے اسی فیصلے کی روشنی میں ہوگا۔ 

سپریم کورٹ نے نواز شریف کو اسلئے نا اہل کیا کیونکہ وہ کاغذات نامزدگی میں اپنے اُن اثاثہ جات کو ظاہر کرنے میں ناکام رہے تھے جو "unwithdrawn receivables" تھے یعنی یہ اثاثہ جات انہوں نے ’’اب تک وصول نہیں کیے تھے۔‘‘ 

عمران خان کا معاملہ دیکھا جائے تو انہوں نے توشہ خان کے تحفے اپنے اُس سالانہ گوشوارے میں ظاہر نہیں کیے جو انہوں نے الیکشن کمیشن میں جمع کرایا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ عمران خان نے یہ اثاثہ جات ایک یا دو سال بعد اُس وقت ظاہر کیے جب میڈیا میں توشہ خانہ اسکینڈل کا بھانڈہ پھوٹا اور الزام عائد کیا گیا کہ عمران خان نے ان تحفوں میں سے کچھ فروخت کردیے ہیں۔ 

عمران اور نواز کا کیس ملا کر دیکھا جائے تو دونوں نے گوشوارے الیکشن کمیشن میں جمع کرائے۔ نواز شریف کے معاملے میں انہوں نے وہ اثاثہ جات ظاہر نہیں کیے جو انہیں ملے ہی نہیں تھے لیکن قابل وصول تھے۔ عمران خان کے کیس میں دیکھیں تو انہوں نے وہ اثاثہ جات ظاہر نہیں کیے جو انہیں توشہ خانہ کے تحفوں کو فروخت کرنے سے حاصل ہوئے۔ 

عمران خان نے یہ اثاثہ جات ایک سال بعد کے ڈکلیریشن میں ظاہر کیے۔ نواز شریف نے 2013ء میں کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت ڈکلیریشن جمع کرایا جس کے بعد ان کی جماعت الیکشن جیت گئی اور وہ وزیراعظم بن گئے۔ 

عمران خان نے ڈکلیریشن اُس وقت جمع کرایا جب وہ وزیراعظم کے عہدے پر تھے اور قانوناً یہ لازمی تھا وہ ارکان پارلیمنٹ ہر سال اپنے اثاثہ جات اور واجبات کے حوالے سے ڈکلیریشن جمع کرائیں۔ الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے کے بعد عمران خان کے پی ٹی آئی فنڈنگ کے حوالے سے سرٹیفکیشن پر بھی سوالات اٹھ رہے ہیں کہ فنڈنگ کی نوعیت کے حوالے سے جھوٹا سرٹیفکیٹ پیش کرنے پر انہیں سزا دینا چاہئے یا نہیں۔

اہم خبریں سے مزید