دیہی علاقوں میں ملک گیر سطح پر بھوت اسکولوں کے حوالے سے گذشتہ کئی برسوں سے رپورٹیں منظر عام پر آرہی ہیں مگر اتنی مدت تک صورتحال کا جوں کاتوں رہنا تعلیم کے صوبائی محکموں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔ اطلاعات کے مطابق سندھ کے ضلع ٹنڈو الہ یار کے مختلف گوٹھوں میں قائم سرکاری اسکولوں کی عمارات میں با اثر افراد کے جانور باندھے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ صرف سندھ کاا نہیں،دوسرے صوبوں کے حوالے سے بھی ایسی ہی رپورٹیں آئے دن میڈیا کا حصہ بنی ہوتی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ ان میں سے بعض درسگاہیں ایسی ہیں جہاں نہ تو کوئی ٹیچر تعینات ہے نہ ہی داخلے کیے جاتے ہیں۔ یہ کیفیت ظاہر کرتی ہے کہ یہ سب دانستہ کیا جارہا ہے۔ دوسری جانب بی اے پاس کرنے والے پی ایس ٹی اساتذہ آفر آرڈر لیے گھروں میں بیٹھے ہیں۔ ان کو محکمہ تعلیم کی جانب سے اسکولوں میں جگہ نہ ہونے کے باعث تعیناتی کے احکامات جاری نہیں کیے گئے۔ اسکول کی حیثیت کسی بھی معاشرے میں رسمی تعلیم کے حوالے سے ابتدائی درسگاہ کی ہے جہاں نونہال بنیادی تعلیم حاصل کرتے اور آگے بڑھنے کے قابل بنتے ہیں۔ بد قسمتی سے اس وقت ملک کے ڈھائی کروڑ بچے ابتدائی تعلیم سے محروم ہیں۔ ملک کی کثیر آبادی پون صدی بعد بھی ناخواندہ ہے حالانکہ یہ حقیقت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آج کی دنیا میں قومی سطح پر ہر شہری کے لیے معیاری تعلیمی سہولتیں مہیا کیے بغیر ترقی محال ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے انتخابی منشور میں مفت تعلیم کا نعرہ اگرچہ ہمیشہ سے سرفہرست رہا ہے تاہم حکومتیں ہر سال وسائل کی قلت کا عذر پیش کردیتی ہیں۔ان حالات میں متذکرہ اسکولوں کی عمارتوں کو ذاتی استعمال میں لانا تعلیم کے ساتھ سنگین مذاق ہے۔ لہٰذا صوبائی حکام کو یہ عمارتیں بلاتاخیر خالی کرواکے ان میں درس و تدریس کا عمل شروع ہونا چاہئے۔
اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998