• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ازل سے ابد تک ، انسان دُکھی ہی رہے گا۔ بڑے بڑے بادشاہ ساری زندگی اضطراب کا شکار رہے ۔ شیبانی خان کے ہاتھوں لگنے والے زخم ظہیر الدین بابر کو ہمیشہ یاد رہے ۔ اضطراب کے عالم میں بادشاہ ہمسایہ سلطنتوں پہ عذاب بن کر ٹوٹتے رہے ۔ اسی کشمکش میں ان کی زندگیاں تمام ہوئیں ۔ صدام حسین کیوں بار بار ہمسایہ ممالک پہ چڑھ دوڑتا تھا؟ سلطنت میں اضافے‘ وسائل پر قبضے کی وہی حیوانی جبلت۔ سونے کی ایک اور وادی پالینے کی خواہش۔ نفس سلطان کو یہ یقین دلا دیتا ہے کہ یہ جو ہمسایہ سلطنت پر تم قبضہ کرو گے تو اسی میں انسانیت کی بھلائی ہے‘ مذہب بھی اسی طرح فروغ پائے گا۔

آج انسان مہذب ہو چکا ہے۔ غلاموں کی خرید و فروخت ختم ہو چکی ۔اس تہذیب یافتہ انسان کی حقیقت دیکھنا ہو تو کبھی شام ، یوکرین اور کشمیر میں جا کر دیکھئے۔ عراق میں آج بھی لونڈیاں بکتی ہیں ۔ لیبیا سمیت ، دنیا میں جہاں کہیں مقامی حکمران کمزور پڑے، عالمی قوتیں ان پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑیں ۔

سرکارﷺ نے فرمایا تھا کہ '' ایک سونے کی وادی آدمی کو دے دی جائے تو وہ دوسری وادی کی آرزو کرے گا اور مٹی کے سوا کوئی چیز اس کا پیٹ نہیں بھرسکتی‘‘۔ یہ تو تھی امیروں کی بات۔ اب غریبوں کا حال دیکھئے ۔ دنیا میں بے شمار لوگوں کا طرزِ فکر یہ ہے کہ ہمیں اگر روٹی ، کپڑا اور مکان نصیب ہوجائے ، بچوں کی تعلیم اور لڑکیوں کی شادی عزت آبرو سے ہو جائے تو ہم ساری زندگی سکھی اور مطمئن رہیں گے۔ حیرت انگیز طور پر ان میں سے کچھ لوگوں کے جب حالات پھرے تو وہ پہلے سے زیادہ مضطرب ہو گئے۔

سوال یہ ہے کہ انسان مطمئن کیوں نہیں ہوتا؟ بادشاہ بادشاہوں کی ریاستوں پر قبضے کی کوشش کیوں کرتے ہیں؟ غریب لوگ خوش حال ہو کر بھی مطمئن کیوں نہیں ہوتے؟ ہونا تو یہ چاہئے کہ آپ کی ایک شادی ہو گئی‘ آپ کو ایک سلطنت حاصل ہو گئی‘ آپ کو زندگی کی بنیادی ضروریات حاصل ہو گئیں تو آپ مطمئن ہو جائیں۔ ہو یہ رہا ہے کہ جسے دولت مل گئی، وہ مزید دولت کی خواہش میں دیوانہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ لوگ اپنی اولاد کو وقت نہیں دے سکتے، اپنے جسم کو وقت نہیں دے سکتے ؛حالانکہ معالج خبردار کررہا ہوتاہے کہ آپ کی صحت کو سنگین خطرات لاحق ہیں ۔ ہوش اسے اس دن آتا ہے ، جب وہ ڈھے پڑتا ہے ۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواہشات کے تعاقب میں انسان ساری زندگی پاگلوں کی طرح لڑتا کیوں رہتا ہے؟ اس کی وجہ بہت سادہ سی ہے۔ جنت سے نکالا ہوا انسان‘ وہ سب کچھ دوبارہ سے حاصل کرنا چاہتاہے‘ جو اسے وہاں حاصل تھا۔وہ اسے یہاں مل نہیں سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ خواہشات کا پیچھا کرتے کرتے وہ پاگل ہو جاتا ہے ، اطمینان نصیب نہیں ہوتا۔

یہ سیارہ‘ Planet Earthبہت چھوٹا ہے۔اگر کوئی بادشاہ کرۂ ارض کو مکمل طور پر فتح کر لے تو پھر بھی وہ مطمئن نہیں ہو پائے گا‘ اسے چاند، مریخ بلکہ پوری کہکشاں پر حکومت چاہئے۔ کہکشاں مل جائے تو یہ پوری کائنات ۔ ادھر اس کے نازک سے بدن کا حال یہ ہے کہ گردے میں پتھری کی وجہ سے پیشاب کا اخراج رُک جائے تو زندگی ختم ہو جاتی ہے۔

یہاں سے آپ کو باآسانی معلوم ہو جائے گا کہ انسانوں کے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ خواہشات کا کوئی دوسرا کنارہ ہے ہی نہیں۔ آپ عسرت سے خوشحالی میں آبھی جائیے تو اطمینان نام کی چیز آپ کو ملنے والی نہیں۔ دوسری طرف انسانوں کی اگر پانچ فی صد خواہشات بھی پوری ہونا شروع ہو جائیں تو دنیا تباہی کی طرف چل پڑے۔

انسان کی مثال ایک بچّے کی سی ہے۔ اسے بازار کی ہر چمکتی ہوئی چیز چاہئے۔ یہ تو اس کے زیادہ عقل رکھنے والے ماںباپ ہوتے ہیں‘ جو اس کی کچھ خواہشات کو پورا کرتے ہیں‘مگر زیادہ تر خواہشات کو اس کی چیخ و پکار کے باوجود نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ اپنے لختِ جگر کی تمام چیخ و پکار نظر انداز کرتے ہوئے ، ہسپتال میں اسے زبردستی انجکشن لگواتے ہیں ۔اسی طرح خدا کی طرف سے حالات کا انجکشن انسان کو لگتا ہے تو وہ زندگی میں آگے بڑھ پاتا ہے۔ اس انجکشن میں وقتی تکلیف اور دیر پا فائدہ چھپا ہوتا ہے۔ جنت سے نکالا ہوا آدمی سارے معاملات اپنے ہاتھ میں لینا چاہتا ہے ۔ افسوس کہ اس دنیا میں انسان کبھی تمام معاملات پر کنٹرول حاصل نہیں کر سکے گا۔

اس کے علاوہ دو بہت بڑی چیزیں‘ جو انسان کے کنٹرول میں نہیں ہیں۔ وہ ہیں؛Stimulus اور خیالات کا نزول۔ ان پر جب تک انسان کا کنٹرول نہ ہو‘ تب تک وہ اپنی اس دنیا وی زندگی سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ ان پر کنٹرول انسان کو مل نہیں سکتا‘ اگر ملے تو آزمائش ختم ہو جاتی ہے اور یہ دنیا بنی ہی آزمائش کے لئے ہے۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ خدا زندگی بھر انسان کو مسائل سے نکلنے کیوں نہیں دیتا؟ ’’خود سے خدا تک‘‘ کے مصنف ناصر افتخار کے الفاظ میں اگر انسان کو ان تمام مسائل سے نکال کر سب چیزیں اس کے کنٹرول میں دے دی جائیں تو دنیا اپنی مٹھی میں کر لینے والا انسان پھر کہاں خدا کو یاد کرے گا؟ زیادہ تر کیسز میں‘ یہ تو انسان کے مسائل ہیں‘ جو اسے خدا کی طرف رُجوع کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں‘ان حالات و مشکلات کی اصل وجہ یہ ہے کہ خدا یہ چاہتاہے کہ ہم اسے یاد کرتے رہیں۔

تازہ ترین