• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک افغان کے طورخم بارڈر پر طویل عرصہ سے دوطرفہ آمدورفت بغیرکسی پابندی کے جاری ہے اس کراسنگ کو سرحد کے دونوں جانب رہنے والے نہ صرف سمگل شدہ اشیاء کی نقل و حمل کیلئے استعمال کرتے ہیں بلکہ اس کی آڑ میں منشیات کی افغانستان سے پاکستان کے راستے خلیجی و یورپی ممالک تک ترسیل کا کاروبار بھی جاری ہے جس سے انکار ممکن نہیں، پاکستان نے افغانوں، ان کے بچوں اور خواتین کو صرف ریفیوجی کارڈ دکھا کر پشاور میں علاج کرانے کی اجازت دے رکھی تھی لیکن گزشتہ کئی سالوں سے یہ آزادانہ نقل و حرکت پاکستان کیلئے سیکورٹی کے بہت سے مسائل پیدا کررہی ہے اور افغانستان سے آنے والے مسلح جنگجو اور سمگلر اس سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں آرمی پبلک اسکول پشاور اور باچا خاں یونیورسٹی چارسدہ پر کئے جانے والے حملوں میں ملوث دہشت گردوں کے بارے میں تحقیقات سے یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ گئی ہے کہ وہ اسی راستے سے پاکستان میں داخل ہوئے تھے ان حالات میں پاکستان کیلئے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں کہ وہ اپنی مغربی سرحد پر آمدورفت کو کسی ضابطہ کا پابند بنائے پاکستان نے دو ماہ پہلے طورخم کراسنگ سے آزادانہ اندرون ملک آنے والوں پر پابندی لگائی تھی کہ وہ ویزا اور پاسپورٹ کے بغیر سرحد کے اس پار نہیں آسکتے لیکن پھر افغان حکام کے اصرار پر افغانستان سے آنے والوں کو ایک ماہ فری انٹری کی اجازت دیدی گئی اب یہ مدت ختم ہونے کے بعد اس پابندی کو دوبارہ لاگو کردیاگیا ہے اس سے آزادانہ آمدورفت کے عادی افراد کو یقیناً کچھ زحمت ہوگی لیکن اس پر اصل شوروغوغا وہی لوگ کررہے ہیں جو اس سہولت سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن پاکستان کی سلامتی کو درپیش خطرات کے پیش نظر ایسے اقدامات کرنا ناگزیر ہیں اسلئے ان پر پوری قوت سے ان پر عمل کرنا چاہئے افغان حکومت کو بھی پاکستان کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے اس معاملے میں تعاون کرنا چاہئے اور اسے خوامخواہ مسئلہ نہیں بنانا چاہئے۔
تازہ ترین