• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
(گزشتہ سے پیوستہ)
اسرائیل، اُردن اور تنظیم آزادیٔ فلسطین کے درمیان 1994ء کا امن معاہدہ۔یہ معاہدہ اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہے کہ پانی کے مسائل اُن ممالک کے درمیان بھی حل ہوسکتے ہیں جو ایک دوسرے کے دشمن ہیں ۔ دریائے اُردن ایسے پانچ ممالک کے درمیان بہتا ہے ،جو آپس میں جنگیں لڑ چکے ہیں۔ دریائے اُردن کے بارے میں اہم مسئلہ یہ تھا کہ اس دریا کے اردگرد واقع ممالک یعنی اسرائیل، اُردن، لبنان اور شام کے درمیان پانی کے سالانہ بہائو کی منصفانہ تقسیم کیسے کی جائے؟ فریقین کے درمیان عدم اعتماد کو دور کرنے کیلئے کسی غیر جانبدار شخصیت کی ثالثی درکار تھی۔ چنانچہ یہ فریضہ امریکہ کے خصوصی ایلچی نے سرانجام دیا۔چونکہ اس خطے میں پانی کا زمین، مہاجرین اور سیاسی خودمختاری جیسے دیگر متنازع امور کے ساتھ گہرا تعلق تھا اور ہے ، اس لئے امریکہ کے خصوصی ایلچی ایرک جونسٹن سے موسوم ’’جونسٹن مذاکرات‘‘کے ذریعے ان تمام ممالک کے درمیان پانی کے حقوق کے بارے میں تنازع پر ثالثی کی کوشش کی گئی۔تمام ممالک کیلئے قابلِ قبول مشترکہ پلان میں عربوں اور اسرائیل کی تجاویز کو ہم آہنگ کیا گیا ۔ مشترکہ (یونیفائیڈ) پلان بنا جو بعد ازاں جونسٹن پلان کے نام سے مشہور ہوا۔اس پلان میں تمام ممالک کیلئے دریائے اُردن کے پانی کے حصے مختص کئے گئے ۔1967ء کی اسرائیل عرب جنگ کے دوران اسرائیل نے گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا۔ گولان کی پہاڑیاں دریائے اُردن سمیت مشرقِ وسطیٰ کیلئے پانی کا بڑا منبع ہیں۔ 1978 ء میں اسرائیل کی لبنان کے خلاف جارحیت اور فلسطینی سرزمین کو اپنے اندر ضم کرنے کی ایک بڑی وجہ پانی بھی تھا۔ بین الاقوامی برادری کی جانب سے بھرپور سفارتی کوششوں کے باعث اُردن اور اسرائیل دریائے اُردن میں شراکت داری اور پانی کی تقسیم کے معاہدے پر متفق ہوگئے۔1994 ء کا یہ معاہدہ عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان تمام متنازع معاملات کو حل کرنے کیلئے امن کے مربوط انتظام کا ایک حصہ ہے۔ اس معاہدے کا آرٹیکل 6اور Annex-2 دونوں ممالک کے درمیان پانی کی حصہ بندی اور ایک دوسرے کے سرحدی علاقوں میں دریائی اور زیرِ زمین پانی کے وسائل کے حوالے سے حقوق اور فرائض سے متعلق ہے۔ اس معاہدے کے مطابق پانی کے مشترکہ وسائل کا کسی دوسرے ملک کے لئے ضرررساں استعمال قطعی طور پر ممنوع ہے۔ نیز ہر ملک کیلئے پانی کا حصہ دریاکے زیرِاثر قابلِ کاشت رقبے کی بنیاد پر متعین کیا جائے گا۔ یہ پلان ہر ملک کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے حصے کا پانی اپنی منشا کے مطابق استعمال کرے اور اگر وہ چاہے تو اپنے حصے کے پانی کو دریائے اُردن کے بیسن سے باہر بھی منتقل کر سکتا ہے۔ بعد ازاں اسرائیل، اُردن اور تنظیمِ آزادی فلسطین کے درمیان ’’ناروے امن اقدامات‘‘ کے زیراہتمام مشترکہ پانی کی تقسیم کے بارے میں معاہدہ طے پایا۔ 1994 ء کے امن معاہدے کے ایک جزو کے طور پر اُردن، اسرائیل میں واقع جھیل کے اندر پانی ذخیرہ کرتا ہے جبکہ اسرائیل اس کے عوض اُردن کی اراضی اور کنویں استعمال کرتاہے۔
دجلہ اور فرات ۔ خود مختار ی کے حق کا استعمال ۔ پانی اور سیاسی معاملات کا گٹھ جوڑ
دریائے دجلہ اور دریائے فرات کا آغاز ترکی سے ہوتا ہے اور یہ شام سے گزرتے ہوئے عراق میں داخل ہوتے ہیں ۔ ان دریائوں کے پانی کے استعمال سے متعلق امور کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دریا کے بالائی علاقے میں واقع ملک کا زیریں علاقے میں واقع ممالک سے سیاسی تنازع ہو تو وہ کس طرح اپنے علاقے میں پانی پر حق خودمختاری استعمال کرتا ہے۔
ترکی سے شروع ہونے والا دریائے فرات شام سے بہتے ہوئے عراق کے اندر دریائے دجلہ میں جاملتا ہے۔ جہاں یہ شط العرب کی صورت اختیار کرتا ہے اور پھر خلیجِ فارس میں جاگرتا ہے۔ اگرچہ یہ دریا تین ممالک یعنی ترکی، شام اور عراق میں بہتا ہے لیکن اس کا طاس پانچ ممالک میں منقسم ہے۔ اس طاس کا 47 فیصد عراق، 28فیصد ترکی، 22 فیصد شام، 2.97 فیصد سعودی عرب اور 0.03 فیصد اُردن میں ہے۔ دریائے فرات کے مجموعی پانی کا 89 فیصد ترکی میں واقع 28 فیصد طاس سے پیدا ہوتا ہے۔ اس کے برعکس شام میں دریا کے بیسن کا 22فیصد واقع ہے لیکن یہاں سے صرف 11 فیصد پانی دریائے فرات میں شامل ہوتا ہے، کیونکہ یہاں مقابلتاً کم بارش ہوتی ہے۔ باقی ممالک سے بہت معمولی مقدار میں پانی دریائے فرات میں شامل ہوتا ہے۔1973 ء سے قبل دریائے فرات میں کم و بیش پانی کا فطری بہائو تھا کیونکہ ترکی میں دریا کے پانی کو کنٹرول کرنے کیلئے کوئی خاطر خواہ نظام موجود نہیں تھا۔ 1974 ء میں ترکی میں کیبان ڈیم اور 1975 ء میں شام میں طبقا ڈیم کی تعمیر کے بعد دریائے فرات کے اندر پانی کا بہائو تبدیل ہوگیا۔ 1992 ء میں ترکی میں اتاترک ڈیم اوراس ڈیم سے متصل نظامِ آبپاشی کی تعمیرکی بدولت دریا میں پانی کا بہائو مزید متاثر ہوا۔ترکی میں واقع دریائے فرات کے بالائی حصے میں جنوب مشرقی اناطولیہ پروجیکٹ کی تعمیر نے حالیہ عشرے میں دریا کے قدرتی بہائو کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ترکی اور شام میں ڈیموں کی تعمیرشروع ہونے سے قبل دریائے فرات کا زیادہ تر پانی عراق استعمال کرتا تھا۔دریائے فرات اور دریائے دجلہ کے بارے میں پہلا معاہدہ 1920 ء میں فرانس اور برطانیہ کے درمیان طے پایا۔ فرانس نے معاہدے پر شام کی جانب سے جبکہ برطانیہ نے عراق کی جانب سے دستخط کئے۔ 1980ء کے عشرے میں طے پانے والے دیگر دو معاہدوں نے بھی دریائے فرات کے پانی کی تقسیم میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 1987ء میں شام اور ترکی نے اقتصادی تعاون کے پروٹوکول پر دستخط کئے۔ جس کے تحت ترکی اس بات پر رضامند ہوگیا کہ وہ شام کی سرحد کے پار کم از کم اوسطاً 500 کیوبک میٹر فی سیکنڈ پانی دریا میں چھوڑیگا۔جبکہ 1990ء میں دوسرے معاہدے کی رُو سے عراق اور شام میں یہ بات طے پائی کہ ترکی سے شام کی حدود میں داخل ہونے والے پانی کی مجموعی مقدار کا 42 فیصد شام اور 58 فیصد عراق کیلئے مختص ہوگا۔
1974 ء کے وسط میں شام نے عراق کی یہ درخواست قبول کر لی کہ وہ طبقا سے بھی 0.162ملین ایکڑ فٹ پانی کی اضافی مقدار عراق کو مہیا کریگا۔ تاہم آنے والے برسوں میں عراق نے یہ دعویٰ کیا کہ اس کیلئے پانی کے بہائو میں شدید کمی آگئی ہے اور یہ 920 مکعب میٹر فی سیکنڈ کے عمومی بہائو سے کم ہوکر 197 مکعب میٹر فی سیکنڈ کی ’’ناقابلِ برداشت‘‘ سطح پر آگیا ہے۔ عراق نے عرب لیگ سے اس معاملے میں مداخلت کا مطالبہ کیا۔ مئی 1975 ء میں شام نے عراقی پروازوں کیلئے اپنی فضائی حدود بند کردیں ۔ سعودی عرب کی ثالثی کی بدولت دونوں ملکوں کے درمیان بڑھتا ہوا تنائو ختم ہوا اور 3جون 1975ء میں فریقین کے مابین معاہدہ طے پایا ۔ دوسری طرف شام کی جانب سے علیحدگی پسند کُردوں کی مدد کرنے سے ترکی اور شام کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تو پانی کے مسائل نے بھی پوری شدت کیساتھ سر اٹھا لیا۔ تاہم 2001ء میں ایک اہم پیشرفت ہوئی اور عدآنہ معاہدے کی رُو سے شام اس بات پر رضامند ہوگیا کہ وہ اپنے ملک میں کُرد باغیوں پر پابندی عائد کر دیگا اور تُرکی میں برسرپیکار کُرد باغیوں کی امداد سے بھی دست بردار ہوجائیگا۔ اور اسکے بدلے میں ترکی مشترکہ دریائوں میں پانی کے بلاتعطل بہائو کو یقینی بنائے گا۔
اس تنازع میں جہاں سیاست اور پانی کے مسائل ایک دوسرے کیساتھ جُڑے ہوئے ہیں، عراق کی پوزیشن خاصی کمزور ہے، کیونکہ تاریخی طور پر اس ملک میں بلاروک ٹوک آنیوالا پانی بالائی ممالک میں تعمیر کئے گئے منصوبوں کی بدولت کم ہوچکا ہے۔ ترکی یہ سمجھتا ہے کہ دریائے فرات میں 90فیصد پانی جبکہ دجلہ میں 50فیصد پانی اُسکے علاقوں سے شامل ہوتا ہے ،لہٰذا یہ پانی اُس کی ملکیت ہے۔سیاسی مسئلے پر جاری عدم تعاون کے باعث آبی وسائل پر حق خود مختاری کے حوالے سے ترکی کی پوزیشن میں سخت گیری آچکی ہے اور پانی کے مسئلے پر تینوں ممالک کے درمیان مذاکرات ہنوز نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکے۔
تازہ ترین