• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران احمد سلفی

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کہہ دو کہ اے ﷲ ( اے) بادشاہی کے مالک تو جسے چاہے بادشاہی بخشے اور جس سے چاہے اقتدار چھین لے اور جسے چاہے عزت (وقار) عطا فرمائے اور جسے چاہے ذلیل (رسوا) کر دے۔(چونکہ) ہر طرح کی بھلائی تیرے ہی اختیار میں ہے اور بےشک، تو ہر شے پر قادر (مطلق ) ہے ( سورۂ آل عمران ۳۶)

دنیا میں کوئی مہذب قوم کسی حکومت کے قیام کے بغیر اجتماعی وجود بر قرار نہیں رکھ سکتی۔ چنانچہ بساط ِارض پر مختلف ممالک و اقوام میں ان کے مزاج ، مذہبی افکار یا خود ساختہ اصول و ضوابط کے تحت حکومتیں قائم ہیں اور وہ اپنے فرائض منصبی اپنے قومی و ملی مفادات کے تحفظ، تہذیب و ثقافت کی بقا و فروغ اور مادی سیاسی، معاشی پروگراموں کو عملی جامہ پہنانے کی جدو جہد کرتی ہیں۔

سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ انسا ن اپنی دنیاوی آسودگی و اخروی فلاح و نجات کیونکر حاصل کر سکتا ہے تو یقین جانئے دنیا میں واحد فلسفۂ حیات اسلام ہی ہے جو انفرادی و اجتماعی فلاح و بہبود کا نظام عطا کر تا ہے جس میں حکمران و عوام سب کے سب اپنے خالق و مالک کے بندے اور ﷲ و رسول ﷺکے احکام کے پابند ہیں۔ اسلام میں اقتدار اعلیٰ کا مالک ﷲ تعالیٰ کی ذات ہے جو سب کا خالق و مالک ہے۔ ملک اسی کا اور حق حکمرانی بھی اسی کو حاصل ہے۔ اہل ایمان میں سے جو صاحبان اختیار ہوں وہ ﷲ کی نیابت کر تے ہیں عوام اہل ایمان کو کتاب و سنت کے مطابق چلانے کے پابند سب سے پہلے خود عملی طور پر اس نظام کے مظہر ہونے چاہئیں ،جیسا کہ اوپر درج کر دہ آیت کریمہ میں ﷲ تعالیٰ واضح طور پر ارشاد فرما تا ہے کہ پوری کائنات کی بادشاہی صرف ﷲ ہی کی ہے وہ جسے چاہے بطور اپنے نائب یا خلیفہ کے عطا فرما دے اور جسے چاہے محروم کر دے یعنی یہ سب ﷲ کے اختیار میں ہے۔ ﷲ کے اختیار میں تمام تر بھلائی ہے یعنی جو قومیں اس کے قرآن اور پیغمبر اسلام ﷺ کی اطاعت کر تی ہیں، انہیں دنیا کی سر فرازی اور آخرت کی فلاح و کامرانی عطا فرما دیتا ہے، جبکہ رو گردانی کرنے والوں کو ذلیل و رسوا کر دیتا ہے چونکہ وہ ہر شے پر قدرت رکھنے والاہے۔

آج اگر ہم امن، چین، سکون، عدل ، انصاف حقوق انسانی اور تعمیر و ترقی کے خواہش مند ہیں تو پھر ہمیں اسی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ جس کا حکم ﷲ نے اپنی کتاب میں دیا۔ ترجمہ! جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور نیک کام کر تے رہے، ان سے ﷲ کا وعدہ ہے کہ ( وہ) ان کو ملک کا حکم بنا دے گا ،جیسا کہ ان سے پہلے لوگوں کو حاکم بنایا تھا او ران کے دین کو جسے اس نے ان کے لئے ( بطور نظام حیات) پسند کیا ہے مستحکم و پائیدار کر دے گا اور خوف کے بعد امن عطا کرے گا۔ وہ ( اہل اقتدار و عوام) میری ہی عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی شے (یعنی نظام، نظر یہ، ہستی وغیرہ) کو شریک نہ بنائیں گے۔ اور جو اس کے بعد (یعنی قرآن و حدیث کے احکام واضح ہوجانے کے بعد) کفر کرے ( یعنی ز بانی یا عملی انکار کرے) تو ایسے لوگ بد کر دار ہیں۔ ( سورۃ النور ، ۵۵)

معلوم ہوا حکومت و اقتدار ﷲ تعالیٰ کی امانت اور مسلم حکمران اسکے نائبین ہیں۔ جو خود بھی شریعت کے پابند اور عوام کو بھی کتاب و سنت کے مطابق چلانے والے ہوتے ہیں۔ نبی کریم ﷺکا اسوۂ حسنہ ہمارے لئے سر چشمہ ہدایت ہے ۔آپ کا ہر ہر لمحہ لائق اطاعت ہے۔ کائنات کے امام چٹائی پر سوتے ہیں تو نشان پڑ جاتے ہیں، صحابہ کرامؓ یہ کیفیت دیکھ کر آبدیدہ ہو جاتے ہیں کہ کافروں کے حکمران تو نرم و گداز بستروں پر آرام کریں اور ﷲ کے محبوب ﷺ اس کیفیت سے دو چار ہوں۔ سرور عالم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں کہ ہم دنیا میں عیش کر نے نہیں آئے۔ سیدنا ابو بکر صدیقؓ جب خلیفہ بنے تو ارشاد فرمایا کہ لوگو میں تمہیں شریعت کے مطابق حکم دوں تو میری فرماں برداری کرنا اور اگر مجھے خلاف شریعت پائو تو ہاتھ پکڑ کر میری رہنمائی کرنا۔ خلفائےراشدینؓ کے اس سنہرے دور کو خلافت راشدہ کے پاکیزہ عنوان سے یاد کیا جا تا ہے۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں بیت الخلاء جانے اور آنے سے لے کر دنیا کی امامت و قیادت تک کے اسلوب و آداب سکھائے گئے ہیں۔ بد قسمتی سے آج اسلام کو با ز یچہ اطفال بنا لیا گیا ہے۔ اس نام پر سیاست بھی ہو تی ہے اور کسی حد تک اقتدار کے مزے بھی لوٹے جاتے ہیں ،تاہم الا ماشاء ﷲ ﷲ کے دین کے ساتھ اخلاص دکھائی نہیں دیتا جو انتہائی افسوس کا باعث ہے۔ مملکت خداد اد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مغربی طرز جمہوریت رائج ہے۔ البتہ اسلامی حکومت کی طرح اختلاف رائے یا تنقید کو بر داشت نہیں کیا جا تا۔

قرآن پاک میں ارشاد ہے۔ ترجمہ! بے شک، ﷲ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل لوگوں کے حوالے کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرنے لگو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو۔ ﷲ تمہیں بہت خوب نصیحت کر تا ہے۔ بےشک، ﷲ سنتا ( اور) دیکھتا ہے۔ (سورۃ النساء ۔ ۵۸) حق حکومت ایک انتہائی حساس ترین امانت ہے جسے انتہائی سوچ و بچار اور ہر طرح کی نسلی، لسانی، علاقائی عصبیت اور تعصبات سے آزاد ہو کر اہل افراد کے حوالے کیا جا نا چاہئے ،تاکہ دین و دنیا کی بھلائیوں کا سبب بنے۔ اسلامی فلاحی ریاست کا قیام تب ہی ممکن ہے ،جب ﷲ اور اس کے آخری پیغمبر ﷺکی پاکیزہ تعلیمات پر عمل کیا جائے۔ 

جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمہ! یہ (اہل ایمان ) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں ملک میں دسترس دیں تو نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور برے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام ﷲ ہی کے اختیار میں ہے ۔( سورۃ الحج ۴۱) ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے حکمران خوفِ خدا اور اطاعتِ رسول ﷺسے سر شار ہوں، خود بھی دین پر عمل کرنے والے اور عوام الناس کو بھی دین پر چلانے والے ہوں۔ یقیناً امت کے دکھوں کا مداوا اس کے سوا کچھ نہیں۔( آمین یا رب العالمین)