• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی پوری تاریخ سازشوں اور بحرانوں کا شکار رہی ہے۔ اس مسلسل حالتِ خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام نے ہماری کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ لیکن اقتدار کے لئے محلّاتی سازشوں اور حکومتوں کو بنانے اور گرانے کا عمل آج بھی اسی طرح جاری ہے۔ پاکستان میں آج کل جو بحران عروج پر ہے وہ شاید سقوطِ ڈھاکہ کے وقت کے بحران سے بھی بڑا ہےکیوں کہ ملک ٹوٹنے کے باوجود نہ تو اتنا خوفناک معاشی بحران تھا، نہ ریاست کے ادارے اس طرح باہم گتھم گتھا تھے۔ نہ عوام میں جماعتی بنیادوں پر اتنی نفرت اور تقسیم پائی جاتی تھی۔ اور نہ ہی سیاسی جماعتیں اس طرح ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھیں اس انارکی اور انتشار کی اعصاب شکن صورتِ حال میں پورا ملک افواہوں اور سازشی نظریوں (Conspiracy Theories)کے طوفان میں گھِرا ہوا ہے کہ ملک کی اس تباہ کن صورتِ حال کا ذمہ دار کون ہے؟اور آگے کیا ہونے والا ہے؟ اس حوالے سے سیاسی تجزیہ نگار اور عوام الناس میں تین سازشی نظریے بہت عام تھے۔

پہلا سازشی نظریہ یہ تھا کہ عمران خان کو حکومت سے ہٹانے اور پی ڈی ایم کو حکومت میں لانے اور بعد میں دوبارہ عمران خان کو سیاسی زندگی دینے میں انہی قوتوں کا ہاتھ ہے جو 2018میں ایک طویل المیعادمنصوبے کے تحت عمران خان کو اقتدار میں لائی تھیں اور ان کا بنیادی مقصد 18ویں ترمیم کو ختم کرکے ملک میں ایک صدارتی یا نیم صدارتی نظام قائم کرنا تھا، جو ان قوتوں کے مفادات کا تحفظ بہتر انداز میں کر سکے۔ لیکن عمران خان کی بدترین گورننس ، تباہ کن معاشی پالیسیوں اور ہر ایک سے محاذ آرائی نے ان کی سیاسی مقبولیت کو اس درجہ نیچے گرا دیا کہ ان کی پونے چار سالہ حکومت کے دوران ہونے والے تیرہ میں سے بارہ ضمنی انتخابات پی ٹی آئی بُری طرح ہار گئی ۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق، کرپشن ختم کرنے کے دعوے کے ساتھ برسرِ اقتدار آنے والی حکومت کے دور میں پاکستان میں کرپشن 24درجے بڑھ گئی۔ یہی حال بے روزگاری اور مہنگائی کا تھا۔ پی ٹی آئی کی عدم مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ اس کے وزراء اور ممبران اپنے حلقوں میں جانے کے قابل نہیں رہے تھے اور اگلے الیکشن کے لئے کوئی امیدوار اس کاٹکٹ لینے کے لئےتیار نہ تھا۔چنانچہ ایک پلاننگ کے تحت ایک ’’ نورا کشتی ‘ ‘کا انعقاد کیا گیا، جس کا مقصد عمران خان کو ا ن کی اوقات یاد دلانا اور دوسرے ان کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو بحال کرنا تھا۔ اس نظریے کے حامل دو وجوہات کو اس سلسلے میں سب سے زیادہ اہم سمجھتے تھے۔ اوّل یہ کہ جس وقت عمران خان انتہائی غیر مقبول ہو چکے تھے اور اس کے ساتھی اسے دھڑا دھڑ چھوڑرہے تھے اور اسٹیبلشمنٹ کے قریبی ترین ساتھی چوہدری پرویز الہٰی بھی پی ڈی ایم کے ساتھ ہاتھ ملانے کےلئے ’’ دعائے خیر ‘‘ کہہ چکے تھے۔ وہ اس وقت اچانک کسی کے اشارے پر عمران خان کے ساتھ مل گئے جس کے ساتھ ان کے اختلافات سب سے زیادہ تھے اور وہ چند دن پہلے تک اس کو ’’ نیپیاں بدلنے ‘‘ کا طعنہ دے چکے تھے۔ پرویز الٰہی اگرپی ڈی ایم کا ساتھ دیتے تو عمران خان کی پنجاب حکومت میں واپسی کے امکانات یکسر معدوم ہو جاتے ۔ حمزہ شہباز جب پنجاب کے وزیراعلیٰ کے طور پر کامیاب ہوئے تو عمران خان کے بحیثیت پارٹی لیڈر خط پر پانچ رکنی بینچ کے تین ارکان نے منحرف ارکان کو نہ صرف ڈی سیٹ کر دیابلکہ ان کے ووٹ بھی شمار نہ کئے ۔ اس پانچ رکنی بنچ کے دیگر دو ججوں نے اس فیصلے پر شدید اختلافات کرتے ہوئے اسے نیا آئین لکھنے کے مترادف قرار دیا۔ ضمنی انتخابات کے بعد چیف جسٹس نے آرٹیکل 63Aکی تشریح کے لئے نہ صرف فل بنچ بنانے سے انکار کردیا جس کی استدعا پی ڈی ایم کے علاوہ ملک کی تمام نمائندہ بار کونسلوں نے کی تھی بلکہ اپنے مخصوص گروپ کے ذریعے اپنے ہی کئے ہوئے ایک ماہ پرانے فیصلے کے برعکس چوہدری شجاعت حسین کے بحیثیت پارٹی ہیڈ خط کو غیرقانونی قرار دے دیا اور اپنے سابقہ فیصلے کو غلطی قراردیتے ہوئے یوں تصحیح کی کہ اس کا ازالہ کیا جا رہا ہے اور ممبران کی نا اہلی کا فیصلہ پارٹی ہیڈ نہیں بلکہ پارلیمانی پارٹی کا صدر کرے گا۔ چنانچہ اس کھلی آئینی دھاندلی کے ذریعے عمران خان کو پنجاب کا اقتدار واپس دے دیا گیا تاکہ ساری گیم ان کے حق میں دوبارہ پلٹی جا سکے۔ اس نظریے کی دوسری بڑی دلیل یہ تھی کہ عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کردار کشی کی جو مہم چلائی ، اس کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ۔ لیکن نہ تو اس کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی اور نہ ہی اس کے سوشل میڈیاٹرولز سے باز پرس کی گئی جب کہ اس سے پہلے اسی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے مخالفین کو اس سے کہیں کم مخالفت کے باوجود سخت سزا دی۔ جلا وطن اور تاحیات نا اہل کردیا تھا۔ مالم جبہ ، پشاور میٹروبس، چینی ، گیس اور گندم سے لیکر ممنوعہ فنڈنگ اسکینڈل تک ، کسی بھی معاملے میں عمران خان کو ہاتھ تک نہیں لگایا گیا یوں اس کے ’’ لاڈلے‘‘ ہونے کا تصّور اپوزیشن رہنما ہونے کے باوجود مزید پختہ ہو گیا۔ دوسری سازشی تھیوری کے حامل افراد کا خیال تھا کہ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کے ذریعے عمران خان کے حق میں ہونے والے فیصلوں کے بعد اسے ممنوعہ فنڈنگ کیس میں سزا ہونے کا امکان ہے کیونکہ یہ کیس بہت مضبوط ہے اور عمران نہ تو اس سے بچ سکتا ہے اور نہ ہی اسے ناانصافی قرار دے سکتا ہے جب کہ تیسری سازشی تھیوری کے مطابق کچھ لوگوں کا خیال یہ تھا کہ بحران کو ناقابلِ حل اسٹیج پر لے جانے کے بعد ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں پاکستان کی ’’ نجات دہندہ‘‘ طاقتیں سامنے آجائیں گی۔ آپ کا اب کیا خیال ہے؟

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس

ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین