• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
برطانیہ میں میرے دوستوں اور قارئین کا ایک وسیع حلقہ ہے، اس لئے سال میں میرا کئی بار لندن آنا جانا رہتا ہے۔ گورنر پنجاب بننے کے بعد چوہدری محمد سرور جب پہلی بار کچھ دنوں کیلئے برطانیہ تشریف لے گئے تو لندن میں ہمارے مشترکہ دوستوں نے چوہدری محمد سرور کے گورنر پنجاب بننے کی خوشی میں ان کے اعزاز میں ایک بڑی تقریب کا اہتمام کیا۔ دوستوں کی خواہش تھی کہ میں بھی اس تقریب میں شرکت کروں۔ ابھی میں فیصلہ بھی نہ کرپایا تھا کہ مجھے پاکستانی نژاد برطانوی رکن پارلیمینٹ یاسمین قریشی کی جانب سے چوہدری محمد سرور کے اعزاز میں برطانوی پارلیمینٹ میں منعقدہ ایک تقریب کا دعوت نامہ موصول ہوا جس کا اہتمام چوہدری محمد سرور کے برطانوی پارلیمینٹ اور لارڈز میں موجود دوستوں نے کیا تھا اور اس میں برطانوی پارلیمینٹ کے اسپیکر کی آمد بھی متوقع تھی۔ ہائوس آف کامن لندن کی تاریخی عمارت چونکہ میرے لئے ہمیشہ سے باعث کشش رہی ہے، اس لئے میں نے دونوں تقریبات میں شرکت کا فیصلہ کیا۔
لندن پہنچتے ہی میرے دوستوں کی ٹیلیفون کالز کا سلسلہ شروع ہو گیا کیونکہ دوستوں کو میری لندن آمد کی اطلاع ’’جنگ لندن‘‘ میں شائع ہونے والی خبر سے ہو چکی تھی۔ میرے قیام کے پہلے روز لندن میں مقیم میرے دیرینہ دوست اور معروف بزنس مین شہزاد خان نے چوہدری محمد سرور اور مجھ سمیت دیگر قریبی دوستوں کے اعزاز میں اپنے نئے گھر جس میں وہ کچھ روز قبل ہی منتقل ہوئے تھے، ڈنر کا اہتمام کررکھا تھا۔ کھانے کے بعد رات گئے تک چوہدری محمد سرور اور دیگر دوستوں کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رہا مگر Jet Leg یعنی پاکستان اور برطانیہ کے ٹائم میں 4 گھنٹے کے فرق کے باعث میرا نیند سے برا حال ہورہا تھا، اس لئے مجھے معذرت کرکے جلد رخصت ہونا پڑا۔ دوسرے روز پاکستانی نژاد معروف بزنس مین سر انور پرویز نے چوہدری محمد سرور کے اعزاز میں لنچ کا اہتمام کر رکھا تھا جس میں انہوں نے مجھے بھی مدعو کیا تھا۔ برطانیہ میں شاید ہی کوئی ایسا شخص ہو جو سر انور پرویز کی شخصیت سے واقف نہ ہو۔ سر انور پرویز کو اللہ تعالیٰ نے بے پناہ دولت اور شہرت سے نوازا ہے اور ان کا شمار برطانیہ کے امیر ترین افراد میں ہوتا ہے مگر اس کے باوجود سر انور پرویز کی شخصیت میں انتہائی عاجزی اور انکساری پائی جاتی ہے۔ پاکستان میں ان کے گروپ نے ایک بینک اور سیمنٹ کے منصوبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کررکھی ہے۔ کھانے کے دوران بات چیت کا موضوع پاکستان کی معیشت رہی۔ اس موقع پر میں نے سر انور پرویز کو پاکستان بالخصوص کراچی کے حالات پر انتہائی متفکر پایا۔ اسی رات پاکستانی کمیونٹی کی جانب سے چوہدری محمد سرور کے اعزاز میں سینٹرل لندن کے علاقے وکٹوریہ میں قائم ہوٹل میں عشایئے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ مقررہ وقت سے قبل جب میں ہوٹل پہنچا تو ہال مہمانوں سے تقریباً بھرچکا تھا اور مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی کہ تقریب میں برطانیہ کے دوسرے شہروں بالخصوص گلاسگو سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد آئی ہوئی تھی۔ ہال میں میری ملاقات جنگ لندن کے ایڈیٹر اور جیو لندن کے بیورو چیف افتخار قیصر سے بھی ہوئی جن سے میری اُس وقت سے دوستی ہے جب انہوں نے 1995ء میں میرا اور اہلیہ نازیہ مرحومہ کا جنگ لندن کیلئے انٹرویو کیا تھا۔ دوران ملاقات میں نے افتخار قیصر اور لندن میں جنگ کے نمائندے مرتضیٰ علی شاہ کو اس بات کی مبارکباد دی کہ روزنامہ جنگ، لندن میں جتنا سرگرم آج ہے، پہلے کبھی نہیں تھا کیونکہ برطانیہ کے بارے میں اہم خبریں ہمیں سب سے پہلے جنگ اور جیو کے ذریعے ہی سننے کو ملتی ہیں۔
تقریب کے منتظمین اور میرے قریبی دوستوں شہزاد خان، چوہدری اصغر، قمر عباس، محسن اختر اور مسلم فرینڈز آف لیبر کے بانی فیض رسول نے مجھے یہ شرف بخشا کہ میں ان کے ساتھ ہیڈ ٹیبل پر بیٹھوں۔ چوہدری محمد سرور کے اعزاز میں منعقدہ اس تقریب میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر واجد شمس الحسن، سر انور پرویز، برطانوی وزارت خزانہ کے سیکریٹری ساجد جاوید، برطانوی پارلیمینٹ کے مسلم اراکین خالد محمود، یاسمین قریشی، روشن آراء، انس سرور، لارڈ نذیر، لارڈ قربان، شیڈو منسٹرز ایم پی کیتھ واز جیسی شخصیات بھی موجود تھیں جبکہ تقریب میں کونسلر سہیل منور، طارق خان اور روس سے آئے ہوئے معروف پاکستانی بزنس مین ڈاکٹر طارق نے بھی خصوصی طور پر شرکت کی۔ اس موقع پر تقریب کے منتظمین نے چوہدری محمد سرور کے گورنر پنجاب بننے پر انہیں مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی نژاد برطانوی شہریوں کیلئے یہ بڑے اعزاز اور فخر کی بات ہے کہ اُن میں سے کوئی شخصیت گورنر پنجاب کے عہدے پر فائز ہوئی۔ مقررین میں سب سے بہترین تقریر چوہدری محمد سرور کے قریبی دوست ایم پی مائیکل نے کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ وہ دو ایسی شخصیات کو بہت قریب سے جانتے ہیں جو مختصر نوٹس پر ہزاروں لوگوں کو اکٹھا کرسکتی ہیں جن میں ایک شخصیت پاکستانی گلوکار راحت فتح علی خان اور دوسری شخصیت چوہدری محمد سرور صاحب کی ہے۔ تقریب کی سب سے دل چھو لینے والی تقریر چوہدری محمد سرور کے صاحبزادے ایم پی انس سرور کی تھی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں بتایا کہ پاکستان کے موجودہ حالات اور سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے تناظر میں ان کے والد اور خاندان کیلئے گورنر پنجاب بننے کے بارے میں فیصلہ کرنا آسان نہ تھا۔ انہوں نے تقریب کے شرکاء سے درخواست کی کہ وہ دعا کریں کہ ان کے والد اپنے مقصد میں کامیاب ہوں اور اللہ تعالیٰ ان کی حفاظت فرمائے۔ اس موقع پر تقریب کے شرکاء کو چوہدری محمد سرور پر بنائی جانے والی ایک وڈیو بھی دکھائی گئی جس میں بتایا گیا کہ چوہدری محمد سرور نے برطانیہ آکر کس طرح اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور وہ کس طرح کامیاب بزنس مین اور برطانوی پارلیمینٹ کے پہلے مسلم رکن منتخب ہوئے۔
تقریب کے آخر میں گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور جب تقریر کیلئے ڈائس پر تشریف لائے تو ہال میں موجود لوگوں نے کھڑے ہوکر تالیوں کی گونج میں ان کا استقبال کیا۔ چوہدری محمد سرور نے اپنی تقریر میں کہا کہ ’’انہوں نے گورنر پنجاب کا عہدہ اس لئے قبول کیا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آج پاکستان کو ان کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر ان کا دل کڑھتا ہے تاہم ان کی پوری کوشش ہوگی کہ ان کی گورنری کے دوران لوگوں کا معیار زندگی بلند ہو اور اس میں بہتری آئے۔ چوہدری محمد سرور نے کہا کہ تعلیم ان کا Passion ہے، پاکستان کے لاکھوں بچے تعلیم اور صاف پانی سے محروم ہیں، ان کی کوشش ہے کہ کم از کم ایک ملین بچے تعلیم سے مستفید ہوں اور ان کے اسکولوں میں صاف پانی کیلئے فلٹریشن پلانٹ لگائے جائیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں اس وقت سب سے زیادہ خوشی ہوگی جب وہ کسی اسکول جاکر اس نلکے سے پانی پئیں گے جس سے اس اسکول کے بچے صاف پانی پی رہے ہوں۔ اس موقع پر انہوں نے میک اے وش فائونڈیشن پاکستان جس کے وہ ٹرسٹی ہیں، کا بھی ذکر کیا۔ چوہدری محمد سرور نے اپنی تقریر میں اس بات کا یقین دلایا کہ گورنر ہائوس کے دروازے غریب اور بیمار بچوں کیلئے ہمیشہ کھلے رہیں گے‘‘۔ میں اس تقریر سے قبل چوہدری محمد سرور کی کئی تقاریر سن چکا ہوں مگر آج کی تقریر سے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے یہ ان کے دل کی آواز تھی۔
لندن میں قیام کے آخری روز ایک اہم تقریب چوہدری محمد سرور کے برطانوی پارلیمینٹ اور ہائوس آف لارڈز کے ممبرز دوستوں نے ان کیلئے سینٹرل لندن میں دریائے ٹیمز کے کنارے واقع پارلیمینٹ ہائوس میں منعقد کی تھی جس کی منتظم برطانوی پارلیمینٹ کی پاکستانی نژاد رکن یاسمین قریشی تھیں جبکہ شرکاء میں برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر، برطانوی پارلیمینٹ کے اسپیکر جان برکو، شیڈو وزیر خارجہ الیگزینڈر ڈگلس، شیڈو وزیر انصاف صادق خان، لارڈ قربان، اراکین پارلیمینٹ انس سرور، خالد محمود، وریندر شرما جیسی شخصیات نے شرکت کی اور اپنی تقریر میں چوہدری محمد سرور کی برطانوی پارلیمینٹ اور مسلم کمیونٹی کیلئے خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔ اس موقع پر چوہدری محمد سرور نے اپنی تقریر میں تقریب کے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ وہ اللہ سے دعاگو ہیں کہ انہوں نے جس مقصد کا بیڑا اٹھایا ہے، اللہ اس میں انہیں کامیابی عطا فرمائے۔
میرا اس بات پر پختہ یقین ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو کسی نیک کام کیلئے منتخب کرتا ہے تو اُس شخص کو بھی اس بات کا علم نہیں ہوتا۔ یہی کچھ چوہدری محمد سرور کے ساتھ ہوا۔ 1960ء کی دہائی میں اُن کا برطانیہ جانا، پہلا مسلم برطانوی ممبر آف پارلیمینٹ منتخب ہونا، قرآن پاک پر حلف اٹھانا، بزنس میں کامیابی اور بے پناہ شہرت حاصل کرنا اور اب تقریباً نصف صدی بعد تمام آسائشیں چھوڑ کر اور برطانوی شہریت ترک کرکے وطن واپس لوٹنے میں بھی شاید اللہ تعالیٰ نے کچھ مصلحت رکھی ہے اور شاید قدرت ان سے مزید امتحان لینا چاہتی ہے۔ میری اور تمام دوستوں کی یہ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس امتحان میں بھی کامیاب کرے۔ (آمین) دوستوں کی خواہش تھی کہ میں مزید کچھ روز لندن میں قیام کروں مگر والدہ کی ناسازی طبیعت کے باعث مجھے اپنا دورہ مختصر کرکے فوراً پاکستان پہنچنا پڑا۔
تازہ ترین