• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں گزشتہ چھ سال سے جمہوریت کے پٹڑی پر اترنے کے چرچے کئے جا رہے ہیں لیکن جمہوریت کی یہ ٹرین آگے بڑھنے کے بجائے ایک ہی جگہ پر چکر لگاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اس کی راہ میں کئی ایک رکاوٹیں موجود ہیں جن کو سیاستدان ہی مل کر دور کرسکتے ہیں۔ آپ جب دنیا کے جمہوری ممالک پر ایک نگاہ ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان تمام ممالک میں پہلے نچلی سطح یعنی بنیادی سطح ہی سے جمہوریت نے فروغ پانا شروع کیا تھا اور اس کے بعد یہ جمہوریت آہستہ آہستہ پھیلتی اور پھولتی چلی گئی۔ پاکستان میں جمہوریت کی بنیادوں کو مضبوط بنانے کی جانب کبھی بھی توجہ نہیں دی گئی ہے جس کی وجہ سے جمہوریت اور جمہوری حکومتوں کو ہمیشہ ہی خطرہ لاحق رہا ہے اور اس وقت تک لاحق رہے گا جب تک جمہوری بنیادوں کو مضبوط اور مستحکم نہیں بنالیا جاتا۔ پاکستان میں بار بار لگائے جانے والے مارشل لاء نے جمہوریت کو کھوکھلا بنا کے رکھ دیا اور کم و بیش یہی صورتحال، یہی حالات ترکی میں بھی رہے ہیں اور وہاں پر بھی فوج نے کئی بار وقفے وقفے سے اقتدار پر قبضہ قائم کئے رکھا لیکن ترکی کو پاکستان پر یہ برتری حاصل رہی ہے کہ وہاں پر بلدیاتی ادارے قائم رہتے رہے ہیں اور اپنے فرائض مشکل حالات کے باوجود ادا کرتے رہے ہیں۔ پاکستان میں جنرل ضیاء الحق کے دور میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو غیر جماعتی طریقے سے کروا کر بلدیاتی نظام کو جو نقصان پہنچایا گیا ہے اس کی تلافی آج تک ممکن نہیں ہو سکی ہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر جنرل پرویز مشرف نے جمہویت کا گلہ گھونٹ دیا لیکن انہوں نے جمہوریت کی بنیادی حیثیت رکھنے والے بلدیاتی اداروں کو مضبوط بناتے ہوئے اپنے چہرے پر لگے اس داغ کو کچھ حد تک دھونے کی کوشش کی۔ انہی کے دور میں کراچی کے میئر مصطفیٰ کمال کے دنیا بھر میں کراچی کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے چرچے ہونے لگے لیکن بدقسمتی سے مشرف کے بعد ملک جمہوریت کی راہ پر گامزن کرنے کے بعد جمہوریت کی بنیاد کی حیثیت رکھنے والے بلدیاتی نظام کا بستر ہی گول کر دیا گیا۔
پاکستان میں قومی اسمبلی کے انتخابات اور نئی حکومت کے قیام کے بعد یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ ملک میں اب جلد ہی بلدیاتی انتخابات کروا دیئے جائیں گے لیکن اب لگتا یہ ہے کہ تمام صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے سے کترا رہی ہیں اور اس کے لئے مختلف حیلے بہانوں سے کام لے رہی ہیں جس پر سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اکیس اکتوبر تک بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ دینے کے احکامات بھی جاری کئے ہیں لیکن الیکشن کمیشن کی جانب سے ابھی تک صوبوں میں بلدیاتی انتخابات کرانے کی کوئی تاریخ نہیں دی گئی ہے بلکہ مختلف حلقوں کی جانب سے اس بات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ صوبائی حکومتیں عدلیہ میں ہونے والی تبدیلی کا سہارا لیتے ہوئے بلدیاتی انتخابات سے فی الحال چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ دراصل صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو اپنا رقیب سمجھتی ہیں اور اسی وجہ سے ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کررہی ہیں۔ پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سمیت تمام ہی جماعتیں اپنے اپنے برتری والے علاقے میں بلدیاتی نظام کے بارے میں مختلف رائے پیش کررہے ہیں۔ پنجاب میں برسراقتدار مسلم لیگ ن بلدیاتی انتخابات کو غیر جماعتی بنیادوں پر کرانا چاہتی ہے جیسا کہ ضیاء دور میں ہو چکا ہے حالانکہ مسلم لیگ نون کو یہ بات اچھی طرح جان لینا چاہئے کہ غیر جماعتی بلدیاتی انتخابات مسلم لیگ ن کے لئے زہر قاتل ثابت ہوں گے کیونکہ غیر جماعتی انتخابات میں جماعت کی کوئی حیثیت نہیں رہتی ہے بلکہ علاقے، شہر، قصبے کی شخصیت کو جماعت پر بالادستی حاصل ہو جاتی ہے جو بعد میں جماعت کو تگنی کا ناچ نچانے لگ جاتا ہے۔ حالانکہ اگر کونسل، تحصیل اور ضلع کی سطح پر جماعت کو مضبوط بنا دیا جائے اور ان تمام علاقوں میں سیاسی جماعتوں کو اپنی اپنی ٹریننگ اکیڈمی بنانے کا موقع فراہم کردیا جائے تو نچلی سطح پر ہی جماعت کے اراکین کو اپنی ٹریننگ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ جماعت کو بھی نچلی سطح پرہی مضبوط بنانے کو موقع میسر آئے گا۔
اس سلسلے میں ہمارے سامنے ترکی کی مثال موجود ہے۔ ترکی کے وزیراعظم رجب طیّب ایردوان نے اپنی سیاست کا آغاز استنبول کی ایک چھوٹی سی تحصیل سے کیا تھا اور پھر انہوں نے استنبول بلدیہ کے مئیر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے تھے۔ انہوں نے جس دور میں استنبول بلدیہ کے میئر کی حیثیت سے فرائض سرانجام دیئے تھے اس سے قبل تک استنبول ایک مافیا شہر کی حیثیت رکھتا تھا۔ "اورنٹیل ایکسپریس" نامی فلم میں اس دور کے استنبول کی زندگی کو پیش بھی کیا جاچکا ہے جہاں دنیا بھر کے لیٹروں اور ڈاکوئوں نے ڈیرے ڈال رکھے تھے اور جہاں ٹریفک کا نظام درہم برہم تھا اور پینے کے پانی سے لے کر نکاسی آب تک تیسری دنیا کے ایک غریب اور پسماندہ شہر کی تصویر پیش کررہا تھا لیکن انہوں نے استنبول شہر کے میئر کی حیثیت سے جب اپنے فرائض سنبھالے تو انہوں نے شہر میں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پانی کے نظام کو بہتر بنایا اور ٹیکسوں کی وصولی کو یقینی بناتے ہوئے استنبول کو دنیا کا قابل رشک شہر بنادیا یوں ان کے لئے وزیراعظم بننے کی راہ بھی ہموار ہو گئی۔
ترکی میں بلدیاتی نظام خاص طور پر پاکستان کے لئے ایک مثال کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ پاکستان کے موجودہ وزیراعظم نواز شریف اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف دونوں ہی ترکی کی جانب اپنی نگاہیں مرکوز کئے ہوئے ہیں اور ترکی کے جمہوری نظام سے بڑے متاثر ہیں۔ دونوں ہی رہنمائوں کو ترکی کے بلدیاتی نظام کی طرف بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے اور ان سے اس سلسلے میں بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ترکی میں اس وقت اکیاسی صوبے موجود ہیں لیکن یہ صوبے پاکستان کے صوبوں کے لحاظ سے بالکل مختلف ہیں۔ ان اکیاسی صوبوں میں صوبائی حکومتوں اور صوبائی اسمبلیوں کی جگہ بلدیاتی ادارے اور ان کے سربراہان یعنی میئر یا چیئرمین وغیرہ فرائض ادا کررہے ہیں۔ ان تمام بلدیاتی اداروں کو مختلف اقسام کے علاقائی ٹیکس جمع کرنے کے اختیارات بھی حاصل ہیں جس کی وجہ سے علاقے میں جمع ہونے والے ٹیکسوں کو علاقے کے عوام ہی کی خواہشات کے مطابق خرچ کردیا جاتا ہے (صوبائی حکومتیں اور صوبائی اسمبلیاں نہ ہونے کی وجہ سے تمام اخراجات کی بچت ہو جاتی ہے جو علاقائی عوام پر ہی خرچ کر دیئے جاتے ہیں)اسی لئے علاقے کے عوام اپنے علاقے کو اولیت دیتے ہوئے تمام مسائل کو خود مل جل کر حل کرتے ہیں جس کی بدولت ترکی میں علاقائی ترقی قابلِ رشک ہے جواس ملک کو یورپی معیار پر لے آئی ہے۔ بلدیاتی اداروں کا اصلی مقصد بھی علاقائی رہن سہن، گلی کوچوں، سڑکوں، ٹریفک ، آمدو رفت، رسل و رسائل ، نکاسیِ آب ، پلوں، پانی ، گیس کی فراہمی اور شہر کی صفائی ستھرائی کا خصوصی خیال رکھتے ہوئے عوام کے معیارِ زندگی کو بہتر بنانا اور مقامی لوگوں کو دور دراز واقع دارالحکومت جانے کے بجائے خود ہی اپنے علاقے میں ان مسائل کو حل کرنا ہوتا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں کی دوران جس طرح دور دراز کے علاقوں کو نظر انداز کیا گیا اور ترقیاتی فنڈز اراکین پارلیمینٹ اور سینیٹرز کو دیئے گئے اس سے پاکستان کے بلدیاتی اداروں کو ناقابلِ تلافی حد تک نقصان پہنچا ہے بلکہ اراکین پارلیمینٹ نے قانون سازی کرنے کے بجائے اپنی زیادہ تر توجہ ان ترقیاتی فنڈز کو حاصل کرنے اور ان کو اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے خرچ کردیئے اور قانون سازی کی جانب آنکھیں بند رکھیں اور چھ سال دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے قوانین تیار کرنے میں لگا دیئے۔ اگر یہی ترقیاتی فنڈز بلدیاتی اداروں کو دے دیئے جاتے تو وہ ان فنڈز کو زیادہ بہتر طریقے سے اور اپنے علاقے کی ترقی کے لئے استعمال کرتے جس سے شہر، قصبے اور دیہات اتنے گندے اور پسماندہ نہ رہتے اس لئے یہ کہنا بجا ہے کہ "جس کا کام اسی کو ساجھے"۔
تازہ ترین