• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اوسط درجے کے ذہن کا ایک نشان یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ اکثریت کی رائے کو سچ کی دلیل سمجھتا ہے، ایسا شخص اختلافِ رائے کی ممکنہ تنہائی سے خوفزدہ ہوتا ہے اور بے چہرہ ہجوم کے جذباتی ردعمل سے نفسیاتی اعتماد کا حصول چاہتا ہے۔ ہجوم کی اطاعت محض وضع قطع تک محدود نہیں رہتی بلکہ سیاسی خیالات اور علمی رجحانات تک سرایت کر جاتی ہے۔ اس ہائوہو کا انجام بہرحال تاریخ کے دھارے میں گمنامی ٹھہرتا ہے۔ انسانی علم، تخلیقی سرگرمی، ذرائع پیداوار اور معاشرتی بندوبست کے ارتقا کی تصویر انحراف کی لکیر سے متشکل ہوتی ہے، تقلید تو جنگل کی تاریکی میں مراجعت کا سفر ہے۔ اگلے روز گھر میں مدت سے بند پڑی ایک الماری میں رکھا ایک ہفت روزہ نظر آیا۔ غالباً 1991 ء کے کسی ابتدائی مہینے کی اشاعت تھی۔ یونہی ورق گردانی کرتے ہوئے ایک صاحبِ تقویٰ کی تحریر نظر آئی۔ نواز شریف کی مدح میں متعدد اوراق سیاہ کر رکھے تھے۔ اللہ اللہ! عقیدت میں غلو کی انتہا تھی اور زور بیان میں دریائوں کی روانی۔ یہ وہی صاحبِ قلم ہیں جنہوں نے 18 اکتوبر 1999 ء کو ’کیا اللہ اپنے بندوں کے لئے کافی نہیں‘ کے عنوان سے مشرف آمریت کا استقبال کیا تھا۔ اس کے بعد جادہ شوق کا رُخ جاتی عمرا سے زمان پارک کی طرف موڑ دیا۔ 2018 ء کے اواخر میں کچھ عرصے کے لئے جنون کے آثار سرد ہوئے تھے، ان دنوں پھر سے مدحت آرائی کا شوق فراواں ہے۔ اس بادِ پیمائی میں ہمارے ممدوح تنہا نہیں ہیں۔ صحافت کی گلی میں ایسے موقع شناس اصحابِ نظر کی کمی نہیں جو گوجر خان کے نواح میں ہوا کا رُخ بدلتے ہی قبلہ درست کر لیتے ہیں۔

بیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں یورپ نے متعدد ایسے لکھنے والے پیدا کئے جو ستائش کی تمنا اور صلے کی پروا سے بے نیاز ہو کر گوشۂ گمنامی میں لوح و قلم کی پرورش کرتے رہے۔ مارسل پرائوست، ایذرا پائونڈ اور فرانز کافکا ایسے ہی نابغوں میں شمار ہوتے ہیں۔ بالآخر وقت کے امتحان میں اپنے زمان و مکاں کا نشان ٹھہرے۔ ان ادیبوں میں بھی فرانز کافکا فنا کا ایسا جویا تھا کہ بعد از مرگ اپنی تحریریں جلائے جانے کی آرزو رکھتا تھا۔ کافکا کی تحریریں پہلی عالمی جنگ کے واقعاتی تناظر میں انسانی تقدیر کی کائناتی تفسیر بیان کرتی ہیں۔ ایک مختصر حکایت ملاحظہ کیجئے۔ اگر آپ اس کا تعلق ہمارے صحافتی تجزیہ کاروں کی ’سمت غیب سے چلنے والی ہوا‘ سے جوڑنا چاہیں تو آپ کی رضا، درویش ایسا ارادہ نہیں رکھتا۔

’تاریک بھول بھلیوں میں دوڑتا ہوا ایک چوہا شکوہ کناں تھا کہ دنیا ہر گزرتے دن کے ساتھ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔ گزرے دنوں میں میں جدھر چاہتا تھا دوڑتا پھرتا تھامگر اب دیواریں اس قدر سکڑ گئی ہیں کہ میں اپنے بل کے آخری حصے تک آپہنچا ہوں۔ اس کے بعد میں کہاں جائوں گا۔ چوہے کے عقب میں آنے والی بلی نے کہا کہ تمہیں صرف واپس مڑنے کی ضرورت ہے۔ چوہے نے سمت تبدیل کی اور سیدھا بلی کے منہ میں جا پہنچا‘۔ کافکا کی حکایت ختم ہوئی لیکن انسانی ارتقا کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ کل 15اگست تھی۔ مشرق بعید میں دوسری عالمی جنگ ختم ہو ئے 77 برس مکمل ہو گئے۔ اس موقع پر جنگ میں مرنے والے جاپانیوں کی یاد میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم کشیدا نے یہ عزم دہرایا کہ جاپان کبھی کسی ملک کے خلاف جنگ میں حصہ نہیں لے گا۔ جاپان نے اپنی سمت تبدیل کر لی ہے اور آج دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ دسمبر1941 ء میں پرل ہاربر پر حملے کے وقت جاپان کی آبادی سات کروڑ تیس لاکھ تھی۔ اس لڑائی میں جاپان کے 21 لاکھ 20 ہزار فوجی مارے گئے جب کہ مرنے والے مجموعی جاپانیوں کی تعداد 31لاکھ تھی۔ دوسری عالمی جنگ میں کل چھ کروڑ افراد مارے گئے، جن میں فوجی اموات ڈیڑھ کروڑ تھیں۔ جنگ وسائل پر قبضے کی مجرمانہ معیشت کا نام ہے۔ ذہن انسانی نے اس کا متبادل پرامن مکالمے کی صورت میں دریافت کر رکھا ہے لیکن مکالمے کی بنیادی شرط دوسروں کے لئے جینے کا حق تسلیم کرنا ہے۔ آج کل ہمارے ہاں سیاست میں گرینڈ ڈائیلاگ ، میثاق جمہوریت اور میثاق معیشت کا تذکرہ ہے۔ میثاق جمہوریت کی آواز 2006 ء میں محترمہ بینظیر بھٹو نے اٹھائی تھی۔ 14 مئی 2006 ء کو لندن میں میثاق جمہوریت پر دستخط ہوئے تو اس معاہدے کا بنیادی نکتہ یہ مفاہمت تھی کہ سیاسی قوتیں کسی ماورائے دستور مداخلت کی حمایت نہیں کریں گی۔ ایسی مفاہمت کا مفہوم سیاسی جماعتوں کے اپنے منفرد تشخص کی نفی نہیں ہوتا بلکہ دستور کے دائرے میں رہتے ہوئے پالیسی کے متبادلات پیش کرنا ہوتا ہے۔ سیاسی مفاہمت اپنی بنیاد میں معاشی مفاہمت سے الگ نہیں کی جا سکتی۔ سیاست نام ہی مختلف معاشی و معاشرتی ترجیحات پر عوام سے استصواب کا ہے۔ بینظیر بھٹو کی شہادت سے میثاق جمہوریت کی بنیاد بیٹھ گئی۔ کئی برس تک نادیدہ مداخلت اور سازشوں کا سامنا کرنے کے بعد 8 اگست 2017ء کو میاں رضا ربانی نے کوئٹہ کے ایک اجتماع میں گرینڈ ڈائیلاگ کا تصور پیش کیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ سیاسی اختلافا ت سے قطع نظر وسیع تر سیاسی بندوبست اور عوام کے معیار زندگی سے متعلق معاشی ترجیحات پر تمام فیصلہ ساز قوتوں میں ایسا مکالمہ مرتب کیا جائے جس سے متفقہ اجتماعی نصب العین متعین ہو سکے۔ افسوس کہ اس مدبرانہ تجویز کو خود رضاربانی کی جماعت میں بھی پذیرائی نہ مل سکی۔ آج نصف دہائی کے بعد معاشی اور سیاسی بحران کی پیچیدگی نے ایک بار پھر سے گرینڈ ڈائیلاگ کا سوال اٹھا دیا ہے۔ شہباز شریف گرینڈ ڈائیلاگ کو ضروری قرار دیتے ہیں جب کہ فواد چودھری میثاقِ معیشت کو احمقانہ خیال سمجھتے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ فرانز کافکا کے چوہے کے عقب میں بلی موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کمزور فریق کو اپنی سمت تبدیل کرتے ہوئے بلی سے گرینڈ ڈائیلاگ کرنا ہے یا متبادلات کی وسیع تر دنیا میں مکالمے کی طرف قدم بڑھانا ہے۔

تازہ ترین