• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اللہ تعالیٰ نے انسانوں کی فطرت کو دین فطرت کے سانچے میں ڈھالا ہے اور یہ فطرت خود ایک ایسی ابدی حقیقت ہے جس میں کوئی ردّو بدل نہیں اور پھر اسی فطرت کو انسانوں کے لئے دین قرار دیا گیا۔ انسانوں کی توجہ اسی حقیقت کی طرف مبذول کراتے ہوئے فرمایا ’’سو تم یکسو ہو کر اپنا رخ اس دین کی طرف قائم کرو جو عین فطرت الہٰی ہے، جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ فطرت الہٰی میں کوئی ردّو بدل نہیں، یہی سیدھا (درست و صحیح ) دین ہے، لیکن اکثر لوگ یہ (حقیقت ) نہیں جانتے، (لہٰذا) اسی کی طرف متوجہ رہو اور اسی سے ڈرتے رہو، نماز کی پابندی کرو، اور شرک کرنے والوں میں سے مت بنو۔‘‘ (سورۂ روم)

اس آیت میں واضح طور پر بتا دیا گیاکہ اسلام ہی دین فطرت ہے۔ دین ہی وہ فطرتِ سلیمہ ہے کہ جس پر اللہ نے انسان کی ساخت تیار کی۔ اسی فطرت سلیمہ، اسی صفت طبعی اور استعداد اصلی کا ذکر رسول اللہ ﷺ کی اس مشہور حدیث میں بھی وارد ہوا ہے ’’ ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت انسانی پر پیدا ہوتا ہے، پھر اس کے والدین اُس کی فطرت کو بگاڑ دیتے ہیں، اگر والدین یہودی ہیں تو اسے یہودی بنا لیتے ہیں۔ اگر نصرانی ہیں تو نصرانی اور اگر مجوسی ہیں تو مجوسی بنا دیتے ہیں۔ انسانوں کو دین فطرت پر قائم رہنے کی تاکید فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے تنبیہ فرمائی ’’اور جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کسی اور دین کا اتباع کرے گا تو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیا جائے گا۔(سورۂ آلِ عمران)

دین کو فطرت کا دوسرا نام دیتے ہوئے اسے خالص اور فقط اسلام کے نام سے تعبیر کیا ہے اور تاکیداً فرمایا ہے کہ جو مسلک یا طریقۂ زندگی اسلام کے خلاف ہوگا ،وہ دین ہو ہی نہیں سکتا۔ یعنی فطرت ہی کا دوسرا نام اسلام ہے۔ اس کی مزید وضاحت یو ں فرمادی کہ ’’ پھر کیا اللہ کے دین کے علاوہ کوئی اور دین تلاش کر رہے ہو۔ حالانکہ جو کچھ آسمانوں اور زمینوں میں ہے سب کچھ چار و ناچار اُسی کے سامنے سر تسلیم خم کئے ہوئے ہیں اور اُسی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔ (سورۂ آلِ عمران)مذکورہ بالا آیاتِ قرآنی سے یہ بات واضح ہے کہ ہمیں دین اسلام کو صحیح معنوں میں سمجھنا اور اس پر عمل پیرا ہونا ہے تو پہلے ہمیں ’’فطرت ‘‘ اور ’’دین‘‘ دونوں کے حقیقی معنی و مفہوم کو سمجھنا ہوگا۔

فطرت کا عام مفہوم یہ ہے کہ ’’وہ ایک ایسی قدرتی، پیدائشی اور طبعی خدا داد صلاحیت ہے۔ جو بہ یک وقت سادہ، معصوم ، پاک ، آلودگیوں سےدور اور پاک ہوتے ہوئے روح کی کُھلی اور آشکار ترجمان بھی ہے۔’’فطرت کے اصل معنی ساخت کے ہیں۔ یعنی وہ بناوٹ جو اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے ہر ایک جنس، نوع اور فرد کو عطا کی ہے اور وہ صلاحیتیں اور قوتیں جو اس نے ہر ایک کی ساخت میں رکھ دی ہیں۔ ایک فطرت بحیثیت مجموعی انسان کی ہے، جو پوری نوعِ انسانی میں پائی جاتی ہے۔ 

ایک فطرت ہر ہر انسانی فرد کی جدا جدا بھی ہے، جس سے ہر ایک کی الگ ایک مستقل شخصیت و انفرادیت تشکیل پاتی ہے۔ اسی فطرت میں وہ قوتیں بھی شامل ہیں ،جنہیں استعمال کر کے اپنے آپ کو درست کرنے یا بگاڑنے ، اور دوسروں کے مفید یا مضر اثرات کو قبول کرنے یا رد کرنے کی قدرت انسان کو حاصل ہوتی ہے۔ معلوم ہوا کہ وہ تمام انسانی افعال جن پر کسی قسم کی حرف گیری نہ ہو سکے اور بنیادی طور پر انصاف اور صدق کی اٹل حقیقتوں پر مبنی ہوں فطرت کے مطابق ہیں اور عین اسلام ہیں۔

عربی زبان میں ’’دین ‘‘ کا لفظی معنی غلبہ، طریقۂ زندگی ، نظام حیات ، قانون ، ضابطے کے ہیں ،دین فطرت کی حیثیت سے اسلام ایک ایسا متوازن نظریۂ فکر و عمل ہے جو انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں پرحاوی اور ہر گوشہ زندگی اور شعبہ حیات کے لیے مکمل نظام اور ہدایات کا حامل ہے۔ اسلام کی سب سے بڑی خوبی یہی ہے کہ وہ نہ صرف انسانی زندگی کے روحانی پہلوؤں پر زور دیتا ہے ،بلکہ انسان کی زندگی کے مادی ، دنیاوی ضروریات اور معاملات کا بھی پورا پورا خیال رکھتا ہے اور اجتماعی انسانی زندگی کے لیے مکمل لائحہ عمل اور نظام حیات و ہدایات عطا کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دینی اور دنیاوی خارجی اور داخلی سب ہی ضرورتوں کے درمیان ایک توازن بر قرار رکھتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں معاشرتی نظام، ضابطہ زندگی ، طریقہ حیات، قانون، حکومت، آئین، عدل و غیرہ کی مختلف اصطاحات رائج ہیں، لیکن قرآن کریم نے ان سب کی نعم البدل کے طور ایک جامع اصطلاح دی ہے اور وہ ہے ’’ الدین‘‘ یہی ایمان والوں کے لئے خصوصاً اور تمام انسانوں کے لئے عموماً معاشرتی نظام بھی ہے اور مکمل ضابطہ زندگی بھی ۔ دین ہی ہماری حکومتوں کا قانون اور ہماری مملکت کا آئین ہے ۔ اس آئین کی رو سے انسانوں کی آزادی اور پابندی کی حدود مقرر کرنے کامکمل اختیار اور اقتدار اللہ کو حاصل ہے۔ انسانی اعمال کے غلط اور صحیح ہونے کا معیار بھی دین اسلام اور اس کی کتاب (قرآن کریم) ہی ہے ، جو زندگی کے ہر شعبے کو محیط ہے۔

لہٰذا دین سے مراد اللہ کا عطا کردہ نظام زندگی ہے جو ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرتا ہے۔ لہٰذا زندگی کی درست اور صحیح روش یہی ہے کہ ایمان والے تمام غلط راستوں ، انسانوں کے وضع کردہ نظامِ قانون، آئین اور ضابطہ حیات سے منہ موڑ کر اپنی تمام تر توجہات کو اُس نظام حیات پر مرکوز کردیں جو اللہ کے تخلیقی قانونِ فطرت کا تقاضا ہے اور جس قانون کے تحت اس نے خود انسان کو پیدا کیا ہے۔ اللہ کا یہ قانونِ تخلیق غیر متبدل ہے، اس لئے یہ وہ نظام زندگی یعنی دین فطرت ہے جو خاتم النبیین ﷺ پر نازل ہونے والی وحی کے ذریعے دیا گیا ہے۔

جو غیر متبدل ہے، یہی وہ نظام زندگی (دین فطرت ) ہے جو انتہائی محکم وسائل اور تمام نوع انسانی میں درست توازن قائم رکھنے کا موجب ہے، یہ نظام (دین فطرت) کیا ہے؟ یہی کہ زندگی کے سفر میں ہمارا ہر قدم اُس منزل کی طرف اٹھے جو ہمارے خالق اللہ نے ہمارے لئے تجویز و متعین کی ہے۔ ہمیں اس دین فطرت کی مکمل نگہداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس دین فطرت اسلام کے بنیادی حکم ’’ اقیموا الصلوٰۃ ‘‘ کا سختی سے اہتمام کیا جائے اور ہر طرح کے شرک سے بچتے ہوئے وحدتِ آدم اور وحدت امت کا اہتمام کیا جائے۔غرضیکہ کہ ہمیں اپنے سیاسی ، اقتصادی ، سماجی اورثقافتی تمام افکار و نظریات کو بھی اسی دین فطرت کے تابع کرنا ہے۔

یہ بات جیسا کہ ہم نے شروع میں کہا اللہ نے دین کو فطرت کا نام دیتے ہوئے اسے خالص اور فقط اسلام کے نام سے تعبیر کیا ہے اور تاکیداً فرمائی کہ جو مسلک یا طریقہ زندگی اس کے خلاف ہو گا، وہ دین ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ دین تو اللہ کے نزدیک صرف اور صرف اسلام ہی ہے۔ (آلِ عمران 19) اور اسلام وہ دین ہے کہ جس کی تکمیل اللہ نے خاتم النبیین ﷺ پر نازل ہونے والی آخری وحی کے ذریعے کردی اور یہ تکمیلِ دینِ اسلام ہی اللہ کی سب سے بڑی نعمت ہے جس کی انتہا امت محمدیہ ﷺ پر کر دی گئی۔ فرمایا ’’ آج کے دن میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر تمام کر دیں۔تمہارے لئے دین فطرت کی حیثیت سے اسلام کو پسند کر لیا۔ ‘‘ (سورۂ مائدہ 3 ) معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے جو نظام زندگی تجویز کیا ہے وہ اسلام ہی ہے، لہٰذا اب اس کے ساتھ کسی اور نظام حیات کی مفاہمت یا پیوندکاری کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنے پورے قومی ، سیاسی، معاشی، ثقافتی، عدالتی تعلیمی اور اخلاقی نظام کو اسی دین فطرت اسلام کے ابدی اور بنیادی اصولوں کے تحت ہی استوار کرنا ہو گا۔ اسی میں ہماری بقا ء اور استحکام پوشیدہ ہے اور اب اس سے فرار ممکن نہیں۔ کیونکہ دین فطرت اسلام کی اساس ، انصاف اور اعتدال کے اصولوں پر استوار ہے۔ ہمارے قومی معاشی، سیاسی، عدالتی ، تعلیمی، ثقافتی اور دیگر تمام مسائل کا حل قرآن و سنت یعنی دین اسلام ہی میں پوشیدہ ہے اور وہ مسائل جن کا (قرآن و سنت میں صراحتاً ذکر نہیں ہے) کے تمام ایسے حل جو عدل و انصاف ، عقلِ سلیم اور فطرت کے اصولوں کے مطابق ہوں ، حقیقت میں عین اسلام ہیں۔

اسلام کے دین فطرت کے تصور ہی کے ذریعے امت آرام و آسائش حاصل کر سکتی ہے اور ترقی کی منازل طے کرسکتی ہے اور ایک منظم و متحد اور طاقتور ملت بن کر دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کی صف اول میں جگہ پا سکتی ہے۔ اقتصادی پس ماندگی، جہالت ، بے حیائی، فحاشی و عریانی اور دوسری تمام معاشرتی کمزوریاں جو آج ہمارے معاشرے کا روگ بنی ہوئی ہیں، وہ اسلام کو غلط طورپر ایک جامد اور فرسودہ نظام حیات تصور کرلینے ہی کی وجہ سے ہیں۔ حالانکہ دین فطرت کی حیثیت سے وہ ایک انتہائی صحت مند ، معقول اور عام نظامِ زندگی اور ایک اخلاقی قوت ہے جس سے زندگی میں خود اعتمادی اور کامرانی کے حصول کے لئے ایک عزم صمیم پیدا ہوتا ہے۔

آج اگر ہمیں معاشرے کو اسلامی بنیادوں پر استوار کرنا ہے تو ہمیں اپنے انفرادی اور قومی کردار کو اسی فطری سانچے میں ڈھالنا ہوگا اور ہمیں اخلاق کی ان اقدار کو اپنی زندگی کا جز و بنانا پڑے گا جو ہمیں حقیقی معنوں میں تمام قسم کی آلودگیوں اور ذہنی غلامی سے آزاد کرا سکیں اور ہمارے اندر نفاست، پاکیزگی، پاک دامنی، عصمت اور راست بازی کے جذبات کو بیدار کر کے ہمارے روز مرّہ کے معمولات اور کردار کے ذریعے انہیں ایک ٹھوس حقیقت بنا دیں۔ یوں معلوم ہوا کہ یہ اخلاقی اقدار ہماری گھٹی ہی میں پڑے ہوئے تھے اور ہمارا جز و ایمان ہیں۔ معاشرے کی اصلاح ، بقاء اور استحکام صرف اسی طرح ممکن ہے کہ اس کی تشکیل فطرت کے مطابق ہو، اور ہمارا ضابطۂ حیات ، فلسفۂ زندگی اور قومی نصب العین خالصتہً اسلامی ہو۔