• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لڑائی میں سب سے پہلا قتل سچائی کا ہوتا ہے۔ جنگِ عظیم دوم کے بارے میں جو کچھ بھی ابھی تک میں نے پڑھا اس سے یوں لگا کہ جرمنی کے لیڈر ایڈولف ہٹلر کے مخالفین ابھی تک سچ کے قتلِ عام سے باز نہیں آئے۔
لیکن سچ پورا نہ بھی بولا جائے تو بھی اسے ہرگز پورا چھپایا نہیں جا سکتا۔ ہٹلر نے دُنیا کی ساری سُپر فوجوں سے ٹکر لے کر ان کے غرور کو اپنی قوم کے سامنے سالوں سجدہ ریز کیا۔ اپنے جرنیلوں سے خطاب کرتے ہوئے ہٹلر کہتا ہے کہ’’ لہٰذا پولستانیوں کے اس جنون کو ختم کرنے اور پولستانی حملہ آوروں کے خلاف دفاع کے سلسلے میں اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ پولینڈ کی غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے آئندہ پولستانی گولیوں کے مقابلے میں جرمن بم برسائوں گا اور پولینڈ سے اسی کی زبان میں بات کروں گا۔ جو پولینڈ عرصہ دراز سے جرمنی کے خلاف استعمال کر رہاہے‘‘ ۔ ہٹلر نہیں رہا اور وہ جن سے لڑا وہ بھی جا چکے ہیں لیکن جرمنی عزت اور پہلے سے بھی زیادہ معاشی طاقت کے ساتھ مغرب کا سب سے مضبوط ملک ہے۔ جن ریاستوں نے عزت کے ساتھ جینا ہے اس کے لیڈروں کو ایسے فیصلے بھی کرنے پڑتے ہیں لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ کوئی کم ہمت آدمی اچھا کارپوریٹ منیجر، بین الاقوامی بزنس مین، مزاحیہ اداکار یا سب کو بے وقوف بنانے کی اہلیت سے مالا مال ہو سکتا ہے لیکن اس سے قوم کو لیڈ کرنے کی توقع نہیں کرنی چاہئے۔ ہٹلر بہادر آدمی، جانباز فوجی، بلا کا فیصلہ ساز اور تاریخ کا دھارا بدلنے کا عزم وحوصلہ اور اہلیت رکھنے والا آدمی تھا۔ہٹلر نہ خوش فہم تھا اور نہ ہی کج فہم۔ اسی لئے جنگ سے بہت پہلے اپنی اولین وصیت ان لفظوں میں کی تھی ’’اگر دورانِ جنگ مجھے جانی نقصان ہوتا ہے تو میرا جانشین فیلڈ مارشل ہرمن گورنگ ہو گا اور اگر ہرمن گورنگ کو بھی نقصان پہنچ جائے تو بعد کا جانشین روڈلیف ہیسس ہو گا اگر روڈلیف ہیسس کو بھی کچھ ہو جائے تو پھر جرمن نمائندگان کو یہ حق حاصل ہو گا کہ وہ جانشینی کے لئے کسی بھی لائق ترین اور نڈر ترین شخص کا انتخاب کر لیں‘‘۔
میں نہ تو مشورہ دے رہا ہوں اور نہ ہی کوئی اشارہ اور نہ ہی مجھے آرمی چیف کے کسی خاص نام میں کوئی ذاتی دلچسپی ہے لیکن میں اس زمین میں نسلوں سے گڑا ہوا پاکستانی ہوں ۔جس کے جدِامجد دوران خان نے وادیٔ کہوٹہ کے ایک اونچے پہاڑ پر چھ سو سال پہلے ڈیرا لگایا تھا پھر ملک سیدا خان پھر شیخ الحدیث شیخ محمد عمر پھر سردار سُرخرو خان پھر ذیلدار ناموں خان اور پھر ملک علی حیدر کے بعد میں اور میرے بچے اور ہماری طرح کے ہی اس قوم کے کروڑوں مرد و زن اور قوم کے سارے بچے قومی معاملات میں تماشائی کا کردار ادا کرنے سے انکار کرتے ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے یا اس زمین میں گڑے ہوئے اور جُڑے ہوئے کروڑوں عوام سے پوچھے تو آج اُن کا مسئلہ نمبر ایک پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے امید ہے۔ جس پر ہر لمحے، ہر دن اور ہر وقت کاری ضرب لگائی جا رہی ہے۔ پاک سرزمین میں کاشت کی جانے والی ناامیدی کی فصل کے لئے ٹیکنالوجی کی مشینوں، برادرانہ، پڑوسیانہ اور مضربانہ ہاتھوں سے دن رات کام لیا جا رہا ہے۔ اس وقت ہر پاکستانی ایسی منحوس فصل کاٹنے اور اس کے ہر خوشے کو اُجاڑ دینے والے ریاست کے مضبوط ہاتھ دیکھنا چاہتا ہے۔ نئے آرمی چیف کے لئے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ نیو کلیئر پاکستان کے لوگوں کو ایک قابلِ عمل ریاست اور قابلِ فہم نظام کی اُمید دلائی جائے۔ بیس کروڑ لوگوں کے ملک میں کبھی جمہوریت اور کبھی اکثریت کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اس کے پھل سے صرف دو سو گھرانے اور دو ہزار لوگ خوش ہیں۔ یہ وہ دو ہزار لوگ ہیں جن کا سارے قومی وسائل پر قبضہ ہے مگر ان کے مالیاتی مفادات کی جڑیں اس سر زمین میں کم کم ہیں۔میری آج کی تحریر کو سیاست کی عینک سے دیکھنے والوں کو وہی نظر آئے گا جو وہ دیکھنا چاہیں گے لیکن پاکستان کے آئین کے ساتھ ساتھ ضابطۂ فوجداری میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ جس وقت پاکستان کی جغرافیائی سالمیت یا اندرونی خلفشار اُس درجے پر پہنچ جائے جہاں سول ادارے ناکام نظر آتے ہوں تو پھر فوج کو آئین تماشائی کا کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔میں کھل کر کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے نیشنل سیکورٹی کونسل کے موجودہ آئیڈیا سے اتفاق نہیں ہے۔ اگر ہم واقعی ڈیفنس آف پاکستان میں سنجیدہ ہیں تو اسے کسی صدارتی آرڈیننس کے ذریعے محفوظ نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر موجودہ نظام نیشنل سیکورٹی کونسل کے بغیر نہیں چل سکتا تو پھر اس کی سربراہی سب سے بڑے سیکورٹی ادارے کے سربراہ کے پاس ہونی چاہئے تاکہ اس کے اجلاس خالی صوفوں پر منعقد نہ ہوں بلکہ بامعنی تیاری کے پس منظر کے ساتھ ریاست کے محفوظ مستقبل کے حوالے سے پاکستانیوں کو امید دلائی جا سکے۔ نئے آرمی چیف کا پہلا استقبال پرانے چیلنج کریں گے۔
اگر ملک کی سویلین اور فوجی اسٹیبلشمنٹ درج ذیل چند نکات پر فوری اقدامات کر لے تو پاکستان میں امید کا ٹمٹماتا دیا روشنی کا ٹاور بن سکتا ہے۔
1۔ ریاست کی سلامتی اور رٹ آف اسٹیٹ کو سینڈیکیٹ کرائم یا منظم جرائم کے حوالے سے دیکھا جائے تاکہ شہریوں کو زندگی، چادر اور چار دیواری کا تحفظ مل سکے۔ 2۔ 1979 کے بعد پاکستان کی اکانومی کا گراف تیزی سے بلکہ سر کے بل گرتا آیا ہے۔ غریبوں کو بہت تھوڑا ،عارضی اور کبھی مصنوعی ریلیف ملا۔ تین ارب ساٹھ کروڑ ڈالر رکھنے والے ملک کی قومی معیشت کو معیشت کہنا اپنے آپ کے ساتھ اور لوگوں کے ساتھ دھوکہ اور فراڈ ہے۔ معیشت کی شارٹ ٹرم اور مڈٹرم تشکیل کی جائے۔ 3۔ غریب عوام کے لئے اس ملک میں کچھ نہیں ہے۔ نہ عزت، نہ نوکری، نہ تحفظ، نہ روزگار اور جس نظام میں عوام کی شراکت داری نہ ہو تو اس نظام میں لوہے کے رسّے سے بھی باندھ کر رکھا جائے تو بھی لوگ نہ اس سے ہمدردی رکھتے ہیں نہ ہی وابستگی۔ pro people یعنی عوام دوست نظام بنایا جائے۔ 4 ۔ قالین مارکہ اور کھجور مارکہ برادرانِ اسلام کی خدمات کا شکریہ ادا کرکے چوڑیوں بھرا ہاتھ ان کے پنجے سے نکالنے کا وقت آ گیا ہے۔ پاکستان سنگل ٹریک پالیسی ترک کرے۔ بھارت کی طرح سب سے مطلب نکالے جو بیک وقت چین، یورپ، امریکہ، روس اور مشرقِ وسطیٰ کا ہم سے کئی ہزار گنا بڑا بزنس پارٹنر ہے ہم یہ سبق کب سیکھیں گے.....؟ 5۔نیشنل سیکورٹی کونسل کو فوری طور پر عساکرِ پاکستان کے سربراہ کے ماتحت کر کے اسے دستوری تحفظ دیا جائے۔ 6۔ پاکستان کی موجودہ پارلیمانی جمہوریت کا نظام بدلا جائے تاکہ ہر شعبہ زندگی کے لوگ ملکی امور میں شریک بنائے جا سکیں۔
جہاں قانون جیبی گھڑی اور انصاف موم کی ناک ہو وہاں ہمیشہ ایلکاپون اور رابن ہڈ کی پیدائش کے لئے زرخیز زمین میسر آتی ہے۔ وہاں فارابی، غزالی، البیرونی، حمورابی پیدا نہیں ہو سکتے۔ نظامِ انصاف کو تبدیل نہ کیا گیا تو لوگ قصرِ سلطانی کے گنبد کی طرف نہیں دیکھیں گے بلکہ ان کی امید کا رخ پہاڑوں کی چٹانوں کی طرف مُڑ سکتا ہے۔
تازہ ترین