• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ایک عام آدمی ہوں، میں بھی دوسرے عام پاکستانیوں کی طرح مختلف مسائل سے نہ صرف دوچار ہوں بلکہ پشیمان بھی ہوں۔ مجھے عام آدمی ہوتے ہوئے ایک عام آدمی پر ترس آتا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ہر آنے والی حکومت عام آدمی کا بڑا چرچا کرتی ہے کیونکہ ہر حکومت کے لبوں پر یہ جملہ عام ہوتا ہے کہ حکومت عام آدمی کی زندگی میں بہتری لانے کیلئے کوشاں ہے۔ حکومت کی تمام کاوشیں عام آدمی کی بہتری کیلئے ہیں۔ مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگرچہ ہر حکومت عام آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے کا دعویٰ کرتی ہے مگر بے چارے عام آدمی کی زندگی اتنی کاوشوں کے باوجود ترقی نہیں کر سکی۔ عام آدمی سالوں کی مسافت کے باوجود وہیں کا وہیں کھڑا ہے جہاں سے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا بلکہ سالوں کی مسافت نے اس کا ’’چہرہ‘‘ گرد آلود کر دیا ہے۔ اس کے چہرے کی جھریوں میں اضافہ کیا ہے، اس کی پریشانیوں میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ عام آدمی ہر مرتبہ حکومتوں کے چکر میں آ جاتا ہے پھر اسے ایسا چکر دیا جاتا ہے کہ وہ چکرا جاتا ہے۔ عام آدمی بالکل ہی عام ہو کر رہ گیا ہے۔ ہر حکومت کے آنے کے بعد حکمرانوں کا پہلا دعویٰ یہ ہوتا ہے کہ خزانہ خالی ہے ، عام آدمی کو قربانی دینا پڑے گی، قوم کو کڑوی گولی نگلنا پڑے گی وغیرہ وغیرہ ۔ میں ایک عام آدمی کے طور پر سوچتا ہوں کہ ہر آنے والی حکومت کا یہ دعویٰ ہوتا ہے کہ خزانہ خالی ہے لیکن ہر جانے والی حکومت کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ پچھلی حکومت نے خزانہ خالی کر دیا تھا، پچھلی حکومت نے اتنی خرابیاں کر دی تھیں کہ سدھارنے میں کئی سال لگیں گے۔ افسوس بہت افسوس کہ یہ جملے ایک عام آدمی کو پچھلے کئی سالوں سے سننے پڑ رہے ہیں۔ ایسے جملے سنتے سنتے کچھ کی زندگیوں کی کشتیاں دریا برد ہو گئیں اور کچھ کی کشتیاں منجدھار میں ہچکولے کھا رہی ہیں۔ چھیاسٹھ برس کی بساط پر صرف دکھ اور دعوے لکھے ہوئے ہیں عام آدمی اس تحریر کو پڑھتا ہے اور پھر مہنگائی میں غوطے کھانا شروع کر دیتا ہے۔
میں پرانی باتیں نہیں کرتا ، دس پندرہ سال پرانی باتیں کرتا ہوں۔ ایک عام آدمی کے طور پر جب پرویز مشرف کے دور میں کم از کم تنخواہ 4500مقرر ہوئی تھی تو میں نے ایک روز ایک صحافی کے ذریعے شوکت عزیز، عمر ایوب، حنا ربانی کھر اور ڈاکٹر سلمان شاہ سے پوچھا تھا کہ آپ چاروں ماہرین 4500روپے میں ایک عام آدمی کا بجٹ بنا دیں، آپ تو ملک کا بجٹ بناتے ہیں میرے اس سوال کے جواب میں آئیں بائیں شائیں کیا گیا۔ میں پھر عام آدمی کی طرح اگلی حکومت کی طرف دیکھنے لگا۔ پھر جب نئی حکومت آئی تو میں نے شوکت ترین، حنا ربانی کھر، ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ اور اسحاق ڈار سے یہی سوال پوچھا، جواب پھر گول مول تھا۔ ڈار صاحب تو چھ مہینے بعد رخصت ہو گئے باقی تینوں مختلف اوقات میں خزانہ سلجھاتے رہے مگر میرے سوال پر خاموشی رہی۔ مجھے اس دوران کہا جاتا رہا کہ جمہوریت سے عام آدمی کو فائدہ ہو گا۔
لیکن افسوس کہ ایسا نہ ہو سکا۔ جمہوریت کے نام پر زندگی تنگ ہوتی گئی اور اب تو یہ حالت ہے کہ زندگی کی گاڑی چلانا مشکل ہو گیا ہے۔ اب تو مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے۔ سمجھ نہیں آتی آٹھ دس ہزار میں (جو کہ عام آدمی کی ماہانہ آمدنی ہے) کیسے گزارا کروں۔ آٹھ دس ہزار میں گھر کا کرایہ دوں یا بجلی کا بل؟ پھر سوچتا ہوں کہ گیس کا بل دوں یا بچوں کی فیسیں دوں۔ کچن چلائوں یا بچے پڑھائوں؟ اور اگر اس دوران کوئی شادی آ جائے تو سوچتا ہوں کہ شرکت نہ کرنے کے بہانے کیسے تراشوں۔ ان تمام مسائل کے سامنے میں ایک نفسیاتی مریض بنتا جا رہا ہوں جیسے جیسے مرض بڑھ رہا ہے ویسے ویسے ڈالر بڑھ رہا ہے۔ اگر آپ ایک عام آدمی کی طرح غور کریں تو پتہ چلے گا کہ آج سے پچیس تیس سال پہلے گھر کا ایک فرد کماتا تھا تو گھر کے آٹھ دس افراد کھاتے تھے۔ اب صورتحال بدل گئی ہے اس بدلے ہوئے زمانے میں آٹھ دس افراد کمائیں تو ایک آدمی کو کھلانا مشکل ہو گیا ہے۔ اس موجودہ جمہوریت کے آغاز سے پہلے جو زمانہ تھا اب اس زمانے کی باتیں خواب لگتی ہیں مگر اب تو عام آدمی سے خواب بھی چھین لئے گئے ہیں۔ میں نے جمہوریت کی محبت میں تمام دعوے، وعدے، بہانے برداشت کئے ، میں نے زندگی کی ساری سختیاں برداشت کیں مگر جمہوریت نے مجھے مہنگائی، بے روزگاری، چوری، ڈاکے، بددیانتی اور سب سے بڑھ کر بدامنی دی۔ اس بدامنی میں ہر وقت جان غیر محفوظ رہتی ہے۔ مال پہلے ہی غیرمحفوظ تھا، اب مال ہے ہی نہیں۔ زندگی کے بستر پر کانٹے بچھے ہوئے ہیں کوئی عبادت گاہ، کوئی بازار محفوظ نہیں۔ جنازوں پر بھی گولیوں کی برسات ہوتی ہے اور ہر حکومت کہتی ہے کہ ہم دہشت گردی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔
اس جنگ کا سب سے بڑا ’’فائدہ‘‘ یہ ہوا ہے کہ دہشت گرد مضبوط سے مضبوط تر ہو گئے ہیں اور عام آدمی بالکل نہتا ہو کر رہ گیا ہے۔ شہروں کے شہر اجڑ رہے ہیں اور واشنگٹن میں ڈرون رکوانے کی بھیک مانگی جا رہی ہے۔ آج کتنا وقت گزر گیا ہے نہ دہشت گردوں سے مذاکرات شروع ہو سکے ہیں نہ کسی آپریشن کا آغاز ہو سکا ہے۔ پتہ نہیں کس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔ قوم ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہے اور عام آدمی اس کیفیت میں پس کر رہ گیا ہے کس کو الزام دیا جائے۔ اس سلسلے میں منصور آفاق کا شعر برمحل ہے کہ
بندوق کے دستے پر تحریر تھا امریکہ
میں قتل کا بھائی کو الزام نہیں دیتا
تازہ ترین