• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آئی ایم ایف نے پاکستان کو نیا قرضہ دینے کیلئے دانستہ کڑی‘ ناروا اور قومی مفادات سے متصادم جو شرائط رکھی تھیں‘ ان کے نتیجے میں نہ صرف معیشت پرزبردست منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں بلکہ جون 2013ء میں منظور کئے جانے والے وفاقی وصوبائی بجٹ بھی عملاً بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرضے کی پہلی قسط ملنے کے بعد سے روپے کی قدر میں زبردست کمی آئی ہے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی تین سالہ مدت میں وطن عزیز کی معیشت مشکلات کا شکار رہے گی اور عام آدمی کی حالت میں پائیدار بہتری نہیں آئے گی۔ ہم نے پہلے ہی عرض کیا تھا اس قرضے کی شرائط کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔(جنگ 12ستمبر 2013ء) آئی ایم ایف نے اپنی ویب سائٹ پر جو معلومات فراہم کی ہیں ان کے مطابق 2013-14 کے وفاق اور صوبوں کے بجٹ میں ترقیاتی اخراجات کی مد میں مجموعی طور سے جو رقوم مختص کی گئی تھیں ان میں 321ارب روپے کی زبردست کٹوتی کردی گئی ہے۔ اس کٹوتی کے نتیجے میں ملک میں روزگار کے کم مواقع میسر آئیں گے۔ یہی نہیں اسی مالی سال میں ٹیکسوں کی وصولی کے ہدف کو کم کرکے 2345ارب روپے کردیا گیا ہے جو کہ 130ارب روپے کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ایک اور پریشان کن بات یہ ہے کہ معیشت کی شرح نمو کا ہدف 4.4فیصد سے کم کر کے 2.5فیصد کردیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ گزشتہ حکومت کے 5سالہ دور میں معیشت کی اوسط شرح نمو 2.9 فیصد سالانہ رہی تھی۔ ایسا نظرآرہا ہے کہ 2014-15میں بھی معیشت کی شرح نمو تقریباً4فیصد رہے گی حالانکہ حکومت خود بھی اچھی طرح سمجھتی ہے کہ غربت میں پائیدار کمی کیلئے شرح نمو 7-8فیصد سالانہ رہنی چاہئے۔ آئی ایم ایف کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ مالی سال میں افراط زر کی شرح 10فیصد رہے گی جبکہ تخمینہ 8فیصد تھا۔ ہم سمجھتے ہیں کہ 30جون 2014ء کو ختم ہونے والے مالی سال میں افراط زر 10فیصد سے زیادہ رہے گا۔ یہ بات تشویش کا باعث ہے کہ اسٹیٹ بینک نے آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر ستمبر2013ء میں بھی تیزی سے گرنے دی آئی ایم ایف نے 6.7ارب ڈالر کا قرضہ منظور کرنے کے بعد امریکی ایجنڈے کے مطابق پاکستان کی معیشت کو غیر مستحکم کرنے اور روپے کی قدر پر دبائو بڑھانے کیلئے اس قرضے کی پہلی قسط کی مد میں پاکستان کو صرف تقریباً 540ملین ڈالر دیئے۔ یہ بات ہر محب وطن پاکستانی کیلئے لمحہ فکریہ ہونی چاہئے کہ قرضے کے حجم کے مقابلے میں پہلی قسط کے طور پر اتنی رقم پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں دی گئی۔ اس قسط کے ملنے کے بعد اعتماد کا بحران بڑھا۔ اس کے نتیجے میں روپے کی قدر مزید تیزی سے گری۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ برقرار ہے کہ بگڑتے ہوئے معاشی اشاریوں‘ سرمائے کے فرار‘ ڈالر کی اسمگلنگ اور سٹے بازی نے بھی روپے کو بے توقیر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔کچھ بینکوں نے بھی ناجائز منافع کمانے کیلئے روپے کی قدر گرانے میں سرگرمی سے حصہ لیا۔
قارئین کو یاد ہوگا کہ 2008ء کے آخری چند مہینوں میں بھی آئی ایم ایف کے قرضے کی منظوری سے پہلے روپے کی قدر میں زبردست کمی ہوئی تھی اور اس وقت کے وزیراعظم کے مشیر برائے خزانہ نے پُرزور طریقے سے یہ بات دہرائی تھی کہ روپے کی قدر گرانے میں بینکوں کا ہاتھ ہے مگر کسی کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اب ستمبر2013ء میں ایک مرتبہ پھر بینکوں نے یہ مجرمانہ حرکت کرکے معیشت کو زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک ضروری ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے صنعتوں کی پیداواری لاگت اور درآمدی اشیاء کی قیمتیں بڑھتی ہیں‘ مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے‘ بیرونی قرضوں کا حجم پاکستانی روپے میں بڑھ جاتا ہے اور بیرونی قرضوں و سود کی ادائیگی کی مد میں ملکی کرنسی میں زیادہ رقوم مختص کرنا پڑتی ہیں۔ البتہ ٹیکسوں کی مد میں حکومت کی آمدنی بڑھ جاتی ہے لیکن اس کا بوجھ بہرحال عوام پر ہی پڑتا ہے۔مندرجہ بالا تمام گزارشات کی روشنی میں ہم یہ بات کہنے کیلئے اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں کہ جن غیر پیشہ ورانہ طریقوں سے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا اور آئی ایم ایف نے قرضہ منظور کیا ہے اورجن غلط طریقوں سے حکومت نے ان شرائط کو پورا کیا ہے یا پورا کرنے کی کوشش کررہی ہے‘ ان سے حکومت اور آئی ایم ایف دونوں کی ساکھ بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر امریکی ایجنڈے کے مطابق جنگ لڑتے چلے جانے کے نتیجے میں وطن عزیز میں دہشت گردی کی کارروائیاں روز کا معمول بن گئی ہیں جن سے قیمتی انسانی جانوں کے علاوہ معیشت بھی تباہ ہورہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے امریکہ میں کہا کہ ڈرون حملوں سے پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہورہا ہے لیکن امریکہ نے پھر ڈرون حملہ کردیا۔ممتاز امریکی دانشور چومسکی نے بھی یہی بات کہی تھی۔ ہم گزشتہ کئی برسوں سے کہتے رہے ہیں کہ اس جنگ کے امریکی مقاصد میں پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینا‘ پاکستان کو غیرمستحکم اور اس کی معیشت کو کمزور کرنا شامل ہیں۔ وزیراعظم نے گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مدبرانہ تقریر کی‘ کیا ہی اچھا ہوتا کہ نواز شریف صاحب عالمی برادری کو یہ بھی بتاتے کہ امریکہ کی سرکردگی میں لڑی جانے والی اس جنگ میں معاونت کے صلے میں خود امریکہ نے پاکستان کو یہ یقین دلایا تھا کہ پاکستان کو خوابوں کی تعبیر ملے گی‘ پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نجات مل جائے گی اور پاکستان ایک ایسا خوشحال ملک بن جائے گا جہاں ضروریات زندگی کی فراوانی ہوگی لیکن ان وعدوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ سے ملک قرضوں کے بوجھ میں جکڑگیا ہے‘ غربت‘بیروزگاری‘ مہنگائی اور عوام کی محرومیوں‘ مایوسیوں اور تکالیف میں اضافہ ہوگیا ہے۔ وزیراعظم کو عالمی برادری سے یہ بھی کہنا چاہئے تھا کہ دہشت گردی کی اس جنگ سے پاکستان کی معیشت کو 102ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے اور اب حکومت وقوم میں مزید نقصان اٹھانے کی سکت نہیں ہے چنانچہ دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کے عزم کے باوجود عوام اب یہ چاہتے ہیں کہ حکومت پہلے کروڑوں عوام کی محرومیوں‘ غربت‘ پسماندگی‘ بھوک‘ افلاس اور جہالت کے خلاف جنگ لڑے۔ عوام کا ایک طبقہ یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ پاکستان اگر دہشت گردی کیخلاف جنگ سے علیحدہ ہوجائے تو ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں خاصی کمی آجائے گی اور عدم تحفظ کے احساس میں کمی ہوگی۔وزیراعظم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں یہ بھی کہنا چاہئے تھا کہ عوام کے ووٹوں سے برسراقتدار آنے والی جمہوری حکومت عوامی مطالبات کو لمبے عرصے تک نظرانداز نہیں کرسکتی چنانچہ102ارب ڈالر کے اس زبردست نقصان کے ایک بڑے حصے کو پورا کرنے کیلئے عالمی برادری بھی دہشت گردی کیخلاف جنگ میں اپنا حصہ ڈالے تاکہ لوگوں کے دل ودماغ جیتے جاسکیں۔
تازہ ترین