• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بنارسی ٹھگوں کے بارے میں مشہورہے کہ ایک مولوی صاحب کو کسی نے بکری کا بچہ تحفے میں دیا تو ٹھگوں نے مولوی صاحب کو لوٹنے کا منصوبہ بنایا۔ راستے میں پہلا ٹھگ ملا اور مولوی صاحب سے کہنے لگا آپ نے یہ کتے کا بچہ کیوں اٹھا رکھا ہے؟ مولوی صاحب نے اسے صلواتیں سنائیں اور بھگا دیا۔ تھوڑی دیر بعد دوسرا ٹھگ ملا اس نے کہا مولوی صاحب یہ کتے کا بچہ کہاں لے جارہے ہیں؟ یہ سن کر مولوی صاحب کے اعتماد میں تھوڑا فرق آیا اور وہ جھنجھلا سے گئے مگر اسے بھی بھگا دیا۔ تھوڑا آگے چلے تو تیسرا ٹھگ سامنے آیا اور کہنے لگا، مولوی صاحب آپ اتنے نیک آدمی ہو کر کتے کا بچہ اٹھائے پھررہے ہیں،توبہ توبہ، گاؤں والے آپ کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں؟ یہ سننا تھا کہ مولوی صاحب کا سارا اعتماد غارت ہوگیا ، فوری طور پر بکری کے بچے کو گود سے اتار ا اور لاحول پڑھتے چل پڑے۔ اسے کہتے ہیں منظم پروپیگنڈے کی طاقت کہ مخالفین کو لینے کے دینے پڑ جائیں۔ آج یہ طاقت صرف اور صرف خانِ اعظم کے پاس ہے۔ وہ اس طاقت کو بڑی مہارت سے اپنے سیاسی مخالفین کو کچلنے ، اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کو دباؤ میں لانے کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں۔ لفظوں کے ہیر پھیر سے آج پروپیگنڈا وار کو سوشل میڈیا کی طاقت کہا جاتا ہے اور اسی طاقت کو اپنا اصل ووٹ بینک تصور کیا جانے لگا ہے۔ اس طاقت کے تمام اندرونی و بیرونی بٹن اور کنٹرول خان اعظم کے ہاتھ میں ہیں جسے انہوں نے بھرپور انداز میں استعمال کیا لیکن جیسے ہی وزیراعظم خان اقتدار سے نکالے گئے وہ عوام کے سامنے مظلوم بن کر آئے اور مخالفین کے خلاف تین نکاتی پروپیگنڈا مہم ،جسے آج وہ اپنا بیانیہ قرار دیتے ہیں، چلائی گئی۔پہلا ہدف نیوٹرل، دوسرا ٹارگٹ ابتدائی طور پر عدالت عظمیٰ رات کو کیوں کھولی گئی؟ تیسرا امریکی سازش کے ساتھ مذہب کارڈ بیک وقت کھیلا گیا ۔ یہ بیانیہ پاکستان میں ہر دور میں ہاتھوں ہاتھ بکتا رہا ہے۔ اسی بنیاد پر آج کچھ لوگ خانِ اعظم کے پیچھے چل پڑے ہیں اور یہ سمجھا جارہا ہے کہ وہ اکیلے ہی پاکستان کو درپیش تمام معاشی و سیاسی بحرانوں سے نکال لیں گے۔ دوسری طرف اسے پی ڈی ایم کی بدقسمتی ہی کہئے کہ وہ وزیراعظم خان کو اقتدار سے نکالنے کے چکر میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملانے پر مجبور ہوئی اور خان حکومت کے پونے چار سالہ دورکی تمام سیاسی و معاشی اورسفارتی ناکامیوں کا بوجھ اپنے کندھوں پرلاد لیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماضی میں بے نظیر بھٹو شہید اور نواز شریف کی حکومتوں کو کبھی طاقت اور کبھی عدلیہ کے متنازعہ فیصلوں کے ذریعے نکالا گیا اور جس نے بھی طاقت وروں کے خلاف آواز اٹھانے اور تحریک چلانے کی کوشش کی اسے جیلوں میں ڈالا اور کڑی سزائیں سنائی گئیں، ان کا سیاسی کردار مسخ کرنے کے لئے انہیں چور، ڈاکو قرار دے کر ملک کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کی گئی لیکن خان اعظم وہ واحدلاڈلے ہیں کہ جن کے جلسوں میں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جو نعرے لگے اور پوسٹر لہرائے گئے، اگر یہ کام کسی اور جماعت نے کیا ہوتا تواس کانجانےکیاانجام ہوتا؟ آپ اگریہ جاننا چاہتے ہیں کہ خود ساختہ بیانیے اپنی موت آپ کیسے مرتے ہیں یا سازش کے اندر سازش کیسے بے نقاب ہوتی ہے تو الیکشن کمیشن کے تحریکِ انصاف کے خلاف ممنوعہ فنڈنگ کیس کے فیصلے کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھ لیجئے، آنکھیں کُھلی کی کُھلی رہ جائیں گی کہ یہاں کس طرح انصاف ، احتساب، انقلاب کا نعرہ لگا کر غیر ملکی ممنوعہ فنڈنگ کی بنیاد پر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا رہا ہے۔ اس فیصلے کی گہرائی، سچائی کی تصدیق تو اسی بات سے ہو جاتی ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان اور الیکشن کمیشن کے ارکان کے خلاف جو ریفرنس جوڈیشل کمیشن میں دائر کیا تھا وہ چند لمحوں بعد ہی واپس لے لیا۔ تحریک انصاف کی قیادت نے خطرہ یہی محسوس کیا کہ ریفرنس کی سماعت کے دوران مزید حقیقتیں کھل کر سامنے آجائیں گی۔ کسی بھلے مانس نے خان کو یہ مشورہ دیا ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کا ماحول پہلے ہی بہت گرم ہے ایسے میں انہیں فوری طور پر کسی قسم کا ریلیف ملنا ممکن نہیں ۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے کہ ایک ہی تاریخ ساز فیصلے نے لبرٹی چوک، ایف نائن پارک میں صادق و امین کے مجسمے کو کس طرح زمین بوس کردیا کہ کل کے خان اعظم آج شہباز گل کی گرفتاری کے بعد بنی گالہ محل میں بیٹھے منتوں ، ترلوں اور وضاحتوں پر اُتر آئے ہیں۔ قدرت اپنا انتقام خود لیتی ہے اورعقل والوں کیلئے پہلے سے ہی نشانیاں ظاہر کردیتی ہے کہ کچھ دن قبل ہی توخان اعظم حضرت بابا فرید گنج شکرؒ کے مزار پر حاضری دینے گئے۔ یہ وہی اللّٰہ والوں کا مقام ہے کہ جہاں سےمتمنی اقتدار عمران خان کی دعا قبول ہوئی تھی۔ اسی مقام سے اب چور چور کے نعرے بھی سننا پڑے ۔ اگلے دن ہی مدینہ والوں کی عدالت نے بھی ریاستِ مدینہ بنانے کے جھوٹے دعویداروں کے پیروکاروں کو قید و جرمانے کی سزائیں سنا کر یہ پیغام دیا ہے کہ مسجدِ نبویؐ کے بابرکت مقام کے تقدس کو سیاسی اکھاڑا بنانے والوں کی طرف سے یہ توہین کسی صورت قبول نہیں۔ فساد پیدا کرنے والے ہمیشہ اللّٰہ کی گرفت میں آتے ہیں۔ بے شک اللّٰہ ہی قادر ِمطلق ہے ، اس کے فیصلے عظیم ہیں اور یہی مقامِ عبرت ہے۔

تازہ ترین