• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران خان نے 1996میں اپنی پارٹی پاکستان تحریکِ انصاف کی بنیاد رکھی اور 2011یعنی پندرہ سال تک عوام نے ان کی پارٹی کو کبھی سنجیدہ نہیں لیا اور وہ قومی اسمبلی میں ایک نشست تک محدود رہی کیونکہ انہوں نے جو سیاسی قلا بازیاں لگائیں انہوں نے ثابت کیا کہ وہ مکمل طور پر ایک غیر سیاسی شخصیت ہیں جو ہر وقت اپنی پالیسیاں بدلتے رہتے ہیں اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ بعد میں ان کی یہی سیاسی قلابازیاں ’’یو ٹرن‘‘ کے نام سے مشہور ہو گئیں، جس کا سیدھا سادا ترجمہ یہ ہے کہ وہ اپنے پہلے بیان سے مکر جانےکے ماہر ہیں۔ ملک میں جمہوریت اور انصاف کے نام پر سیاست میں آنے والے عمران خان نے ایک آمر کو اس کے ریفرنڈم میں دل کھول کر سپورٹ کیا اور اسے پاکستان کی آخری امید قرار دے دیا کیونکہ پرویز مشرف نے خان صاحب کو وزیرِ اعظم بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ بعد میں عمران خان کی سیاسی بصیرت اور مقبولیت سے مایوس ہو کر جب پرویز مشرف نے گجرات کے چوہدریوں کو اپنا ہم رکاب بنا لیا اور مسلم لیگ قائداعظم کے نام سے ایک حکومتی سیاسی پارٹی بنا لی تو عمران خان، جنرل پرویز مشرف اور چوہدریوں کے شدید مخالف ہو گئے۔ انہوں نے چوہدری پرویز الٰہی کو پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو قرار دے دیا جو آج کل ان کی پنجاب حکومت کے سربراہ ہیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے محترمہ بے نظیر بھٹو شہید اور میاں نواز شریف کو جلا وطن کیا تھا۔ چنانچہ پرویز مشرف دشمنی میں عمران خان نے میاں نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کی حمایت کا اعلان کر دیا، ان کی اس وقت کی متعدد وڈیوز آج کل بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں جن میں وہ جنرل پرویز مشرف کی مخالفت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بجلی کے تمام کارخانے تو بے نظیر بھٹو کے دور میں لگے۔ موٹروے نواز شریف کے زمانے میں بنی۔ انہوں نے نواز شریف کے فوجی حکومت کے ساتھ ڈیل کے ذریعے سعودی عرب جانے کا بھی پر زور الفاظ میں دفاع کیا اور یہاں تک کہا کہ نواز شریف کو پرویز مشرف حکومت سے انصاف ملنے کی توقع نہیں تھی، اس لیے ان کا ڈیل کے ذریعے بیرونِ ملک جانا غلط نہیں تھا۔ یاد رہے اس سے پہلے وہ شوکت خانم اسپتال کے لیے زمین دینے پر بھی نواز شریف کے شکر گزار تھے، وہ فوج پر شدید تنقید کرتے رہے یہاں تک کہ ہندوستان میں انہوں نے ایک ٹی وی چینل کے پروگرام ’’ آپ کی عدالت‘‘ میں یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان میں کوئی حکومت بھی اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر نہیں بن سکتی۔ اس کے علاوہ ان کی کئی وڈیوز ایسی ہیں جن میں فوج کے بارے میں ان کے ریمارکس نقل نہیں کئے جا سکتے۔ لیکن 2011ء میں جب اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اپنی سرپرستی میں لے لیا تو موصوف کا لہجہ یکدم بدل گیا۔ یوں وہ ماضی میں جن کی تعریفیں کرتے تھے ان کے شدید دشمن بن گئے اور سیاستدانوں کے بارے میں وہی زبان بولنے لگے جو غیر سیاسی طاقتیں بولتی تھیں۔ 2014میں ایک سازش کے ذریعے انہوں نے علامہ طاہر القادری کے ساتھ ملکر حکومت کے خلاف دھرنے دینے کا سلسلہ شروع کیا جن کے دوران سول نافرمانی کا اعلان کیا گیا، ٹی وی ا سٹیشن اور پارلیمنٹ کی عمارت پر چڑھائی کی گئی اور کردار کشی اور بد تہذیبی کا وہ طوفان شروع ہوگیا جو آج تک جاری ہے۔ 2018میں صریحاََ دھاندلی کے ذریعے برسرِ اقتدار آنے کے بعد تو وہ حکومت کرنے کی بجائے سیاسی مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں گرفتار کرنے، صحافت کو پابندِ سلاسل کرنے اور ہر ادارے کو تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہوگئے، جس کی وجہ سے معیشت تباہ و برباد ہو گئی اور 1951کے بعد پاکستان کی گروتھ منفی ہو گئی۔ یہی نہیں سی پیک پر کام روک دیا گیا اور پاکستان کے قریبی دوست ممالک سے تعلقات متاثر ہونے لگے۔ کرپشن میں 24درجے اضافہ ہوا، بے تحاشا قرضے لیے گئے، یعنی قیامِ پاکستان سے 2018تک پاکستان نے 25ہزار ارب روپے قرضہ لیا جب کہ عمران خان کے پونے چار سال میں 20ہزار ارب روپے قرضہ لیا گیا، جس کا مصرف کہیں نظر نہ آیا۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا جو طوفان اٹھا اس نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی۔ جب خطرہ تھاکہ پاکستان جون تک دیوالیہ ہو جائے گا تو ایک آئینی طریقے سے عمران حکومت کو تبدیل کر دیا گیا جسے انہوں نے ہر غیر آئینی طریقے سے روکنے کی کوشش کی اور امریکی سازش کا ایک جھوٹا بیانیہ گھڑ لیا جس کی قلعی پہلے نیشنل سیکورٹی کونسل اور بعد میں کے پی کی حکومت نے خود کھول دی۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس بد ترین کارکردگی کے باوجود محض جھوٹ اور پروپیگنڈے کے زور پر یہ سارا ملبہ قومی اداروں پر ڈال دیا گیااور نفرت کی ایسی مہم چلائی گئی کہ الامان،الحفیظ۔ اسے کہتے ہیں کارکردگی زیرو، پھر بھی ہیرو۔

تازہ ترین