• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج اتوار ہے۔ اپنے بیٹوں۔ بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں سے ملنے۔ ان کے سوالات کے جواب دینے کا دن۔ میں تو بہت غم زدہ شرمندہ ہوں کہ اللہ کی رحمت کو ہم نہیں سنبھال سکے۔ میٹھا پانی جو اوپر سے رحمت بن کر اترتا ہے۔ ہماری فصلوں کو سیراب کرنے، ہماری پیاس بجھانے کو۔ ہم نے اس کے استقبال کی کوئی تیاری ہی نہیں کی۔ موسمیات والے ماحولیات والے برسوں سے خبردار کررہے تھے۔ مگر ہم لالچی، بوالہوس، سیاستدان، ٹھیکیدار، بیورو کریٹ، فوجی، سیاسی حکمراں، بیسویں صدی کے یا اکیسویں صدی کے۔ ہمارے بنگلے پاکستان میں ہی نہیں دبئی، لندن، واشنگٹن، کیلی فورنیا، آسٹریلیا اور ملائشیا میں۔ لیکن ہمیں اپنے بلوچستان۔ اپنے نوشکی۔ اپنے لسبیلہ۔ اپنے موسیٰ خیل کی خبرنہیں ۔ تونسہ بہہ رہا ہے۔ کراچی ڈوب رہا ہے۔ حیدر آباد غرقاب ہورہا ہے۔700ہم وطن پانی میں بہہ گئے۔ سب سے زیادہ المیے بلوچستان میں رُونما ہوئے۔ سوا لاکھ سے زیادہ مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوگئے۔ سب سے زیادہ بلوچستان میں چار لاکھ انسان بے گھر ہیں۔ خیبر پختونخوا میں پچاس ہزار۔ پنجاب میں قریباً دو لاکھ۔ سندھ میں پانچ لاکھ۔ کئی ہزار امدادی کیمپوں میں ہیں۔30ہزار کلومیٹر سے زیادہ سڑکیں متاثر ہیں۔ 134پل گرگئے ہیں۔ ایک لاکھ کے قریب گھر منہدم ہیں۔کیا یہ غیر معمولی صورت حال نہیں۔

میں اپنے بیٹوں بیٹیوں۔ پوتوں پوتیوں نواسوں نواسیوں کو کیا جواب دوں۔ وہ کہہ رہے ہیں کہ اکیسویں صدی میں ہم اتنے غیر محفوظ کیوں ہیں۔ ذمہ دار کون ہے۔ عمران خان، شہباز شریف، مولانا فضل الرحمن، آصف زرداری ۔ آپ بتائیے کہ کس کا نام لوں۔ صرف آج کے حکمراں ہی کیوں۔ 75سال میں جو بھی کرسی پر براجمان رہا ہے۔ یہ اس کی ذمہ داری ہے۔ اعداد و شُمار چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ انگریز کے سو ڈیڑھ سو سال پہلے بنائے ہوئے دریائی پل،ریلوے پل آج بھی محفوظ ہیں۔ ہم نے آزادقوم کی حیثیت سے جو پل بنائے بلوچستان میں سندھ یا پنجاب میں۔ ان کو پانی بہا کر لے گیا۔ یہ جن ٹھیکیداروں نے بنائے وہ ہم میں سے ہی کسی کے بھائی چچا تایا تھے۔ وہ ہمیں اس ناجائز آمدنی سے نوازتے رہے۔ اسلئے ہم میں کسی نے ان سے نہیں پوچھا ہوگا۔ کیسا مٹیریل لگایا۔

جناح کنونشن میں یوم آزادی کے جشن میں ناچ گانا دیکھتے وزیروں، سفیروں،مشیروں افسروں کو بالکل کوئی تشویش نہیں تھی کہ 14جون سے ان کے ہم وطنوں پر کہاں کہاں قیامتیں گزر رہی ہیں۔ کوہ سلیمان سے غیظ و غضب میں اترتے نالوں کا شور ان کے کانوں تک پہنچا ہوتا۔ اپنے گھروں کو مسمار ہوتے دیکھ کر سڑکوں پر بے یارو مددگار کھلے آسمان تلے ہم وطنوں کی بے چارگی کا احساس ہوتا تو یہ اشرافیہ والے رقص پر تالیاں بجانے کی بجائے ان بے خانماں پاکستانیوں کی مدد کو پہنچے ہوتے۔ایک درد مند سابق اعلیٰ افسر کی بھرائی ہوئی آواز مجھے دل گیر کررہی ہے کہ انسانی بستیاں بھی انسانی جسموں کی طرح نازک اور حساس ہوتی ہیں۔ ان شہروں میں ہم اور یہ شہر ہم میں آباد ہوتے ہیں۔ شہر انسانوں کی طرح بیمار بھی ہوتے ہیں۔ ملول بھی۔ گھٹن بھی محسوس کرتے ہیں۔ انہیں پسینہ بھی آتا ہے۔ انہیں پیاس بھی لگتی ہے۔ پانی نہ ملے تو بے حال ہوتے ہیں۔ پانی کی نکاسی نہ ہو تو جسم لڑکھڑا جاتا ہے۔ اسپتالوں کی ایمرجنسیاں بھر جاتی ہیں۔ شہر بھی اسی طرح بے حال ہوتے ہیں۔ کہیں ایک جگہ رکاوٹ ہوجائے تو سانس لینے میں دقت ہوتی ہے۔ شہر کو کوئی عارضہ ہو تو بڑی تعداد میںانسان بھی اس عارضے میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ 14جون سے ہونے والی بارشوں نے ہماری 75سالہ حکمرانی کا کچا چٹھا کھول کر رکھ دیا ہے۔ کتنی یونیورسٹیاں وجود میں آچکی ہیں۔ کتنی انجینئرنگ یونیورسٹیاں بڑے بڑے اداروں، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن، نیشنل ہائی وے اتھارٹی، صوبائی حکومتیں، وفاقی حکومت، نیشنل ڈساسٹر مینجمنٹ اتھارٹی۔ سب سیلابوں کے سامنے بے بس ہیں۔ کیونکہ 75سال میں وقت پر کرنے والے کام نہیں کئے۔ ہزاروں ارب روپے کے قرضےلئے گئے۔ لیکن وہ منصوبے کہاں ہیں جن کے لئے یہ بوجھ اٹھایا گیا۔

ایک ادارہ ہوتا تھا۔محکمہ شہری دفاع۔ جس کے رضاکار ہوتے تھے۔ کسی بھی آفت میں وہ سرگرم ہوجاتے تھے۔ کئی سال پہلے امریکی شہر سنسناٹی میں ہوم لینڈ سیکورٹی کے انتظامات سن رہا ہوں۔یہ ادارہ میڈیا، پولیس سب اداروں سے رابطہ رکھتا ہے۔ ایسی بلڈنگوں کا انتخاب کرتاہے۔ جہاں کسی آفت میں چار پانچ ہزار افراد پناہ لے سکتے ہیں۔ تربیت یافتہ 6ہزار سے زیادہ رضا کارموجود ہیں۔ 24گھنٹے کے نوٹس پر 5ہزار متاثرین کو کھانا فراہم کیا جاسکتا ہے۔ یہاں کا دریا بھی برہم ہوجاتا ہے۔ مکانات کو خطرہ ہو تو اسکولوں میں کیمپ قائم کئے جاتے ہیں۔ پہلے سے سائرن بجائے جاتے ہیں۔ پورا میڈیکل سسٹم ہے۔ جس کے پاس جہاز ہے۔ ہیلی کاپٹر ہے۔ شہریوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ کس سڑک پر ٹریفک جام ہے کہاں شگاف پڑگیا ہے۔ سب اقدامات پہلے سے کئے جاتے ہیں۔این ڈی ایم اے والے اعداد و شُمار تو فراہم کررہے ہیں لیکن مجھے کراچی کے ایک عام شہری کی طرح یہ خبرداری نہیں ہے کہ اگر میں کہیں مصیبت میں پھنس گیا ہوں ۔ بے گھر ہوگیا ہوں تو میرے قریب ترین کونسی پناہ گاہ ہے۔ میں کس فون نمبرپر رابطہ کروں۔ میرے علاقے گلشن اقبال میں کتنے تربیت یافتہ رضاکارہیں۔ این ڈی ایم اے۔ کا کس کس ادارے سے رابطہ ہے۔

میرے بیٹے بیٹیاں پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں آنکھوں میں آنسو لئے پوچھ رہے ہیں کہ ملک میں اتنی بربادی ہورہی ہے۔ ہمارے لیڈر آپس میں لڑ رہے ہیں۔ وزیر اعظم وزراء، عمران خان کے خلاف مقدمات قائم کررہے ہیں۔ عمران خان حکومت کے خلاف تقریریں کررہے ہیں۔ انہیں بلوچستان کی فکر کیوں نہیں ۔ جہاں لاکھوں پاکستانی بے گھر ہوگئے ہیں۔ روز مکانات گر رہے ہیں۔ بچے بڑے آبی ریلوں میںبہہ رہے ہیں۔

جلسوں کے ذریعے جس شعور کی بات کی جارہی ہے اس سے سرشار ہم وطن بلوچستان جنوبی پنجاب میں اپنے ہم وطنوں کی مدد کرتے کیوں نظر نہیں آ رہے۔ بلوچستان میں پہلے ہی محرومیاںبہت ہیں۔ اب یہ بارشوں سے تباہی وہاں کےنوجوانوں کو اور زیادہ برہم نہیں کردے گی۔ کیا انسان دوستی کا تقاضا نہیں ہے کہ وزیر اعظم، وفاقی وزراء، عمران خان سب بلوچستان میں کیمپ لگائیں۔ ہمارے کھرب پتی حکمراں اپنے ذاتی بینک بیلنس سے کروڑوں روپے کے عطیات دیں۔

ہماری انجینئرنگ یونیورسٹیاں اوردوسرے ادارے ملک کی مجموعی صورت حال کا جائزہ لے کر پلوں سڑکوں کی تعمیر نَو کا لائحۂ عمل بنائیں۔ موسم بدل رہا ہے۔ کیا ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن لیڈروں۔ ٹھیکیداروں کو نہیں بدلنا چاہئے۔ عدلیہ کو نہیں چاہئے کہ از خود نوٹس لے کر وزیر اعظم وزرائے اعلیٰ کو حکم دے کہ وہ سب کچھ چھوڑ کر انسانی زندگی کو تحفظ دیں۔

مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کروگے

تازہ ترین