• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان ان دنوں سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔ملک کے طول و عرض میں نقصانات کی تفصیل رونگٹے کھڑے کر دینے کیلئے کافی ہے۔جنوبی پنجاب اور بلوچستان کے علاقوں میں گویا انسانیت سسک رہی ہے۔انسانی بے بسی کا یہ عالم ہےکہ لاشیں کیچڑ میں دھنسی ہوئی ہیں۔دریائے سندھ میں بچوں کی تیرتی لاشوں نے ایک ایسا منظر تخلیق کیا ہے جسکی ماضی قریب میں مثال نہیں ملتی۔یادش بخیر! ہمارے وزیراعظم کبھی لانگ بوٹ پہن کر لاہور کی سڑکوں پر گشت کرتے نظر آ جاتے تھے لیکن کوہِ سلیمان کے پہاڑوں سے اترنے والے سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار غریب لوگ ابھی ان کی نظر التفات کے منتظر ہیں۔تحصیل تونسہ شریف کے بعض علاقوں کےصفحہ ہستی سے مٹ جانے کی اطلاع ہے۔مسلح افواج کی صف اول کی قیادت فلاحی سرگرمیوں کے دوران اپنی جانیں قربان کر چکی ہے۔ ایک بہت بڑا سانحہ وقوع پزیر ہو چکا ہے۔ملکی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔لیکن ہمارے ٹی وی چینلز کو شہباز گل کی میڈیکل رپورٹ سے فرصت ملے تو وہ ان تباہ حال علاقوں کی خبر لیں، ہمارے سیاستدانوں کو ایک دوسرے کو نیچا دکھانے سےنجات ملےتو وہ ان لوگوں کے آنسو پونچھیں، ملک کا باشعور شہری پریشان ہے کہ سیلاب اور بارشوں سے تباہ حال ملک کی اشرافیہ کے مشاغل کیا ہیں۔تادم تحریر کسی سیاسی جماعت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ اسکے رضا کار ان علاقوں میں جاکر متاثرین کی خدمت کریں۔سوائے چند فلاحی اداروں کے جو مسلح افواج کے شانہ بشانہ مصروف عمل ہیں۔ بلوچستان اور سندھ میں ضیاء الامت فاؤنڈیشن کے امدادی کیمپ لوگوں کا واحد آسرا ہیں جہاں خوراک اور ادویات کی فراہمی مسلسل جاری ہے۔مسلم ہینڈز انٹرنیشنل، مسلم چیئرٹی اور الخدمت فائونڈیشن بھی ان علاقوں میں فعال نظر آرہی ہے۔جا بجا کچھ اور تنظیموں کے رضاکار بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن حکومت کا وجود کہیں نظر نہیں آتا۔

اس وقت پوری دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل سے گزر رہی ہے۔بارشوں کے شیڈول میں تبدیلی، ان کی مقدار میں غیر معمولی اضافہ انہی تبدیلیوں کا شاخسانہ ہیں۔پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ماحولیاتی تبدیلیوں پر نگاہ رکھنے والے جرمنی کےایک ادارے نے پاکستان کو موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں آٹھویں نمبر پر رکھا ہے۔جرمن واچ کی رپورٹ کے مطابق فلپائن اور ہیٹی کے بعد پاکستان، دنیا میں موسمی حالات کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات سے سب سے زیادہ اور مستقل طور پر متاثرہ ملک ہے۔حالانکہ یہ خرابی پیدا کرنے میں پاکستان کا کردار ایک فیصد سے بھی کم ہے۔پاکستان میں 2010 کا سیلاب اس سلسلے کی پہلی کڑی تھا۔اسے ’’سپرفلڈ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔این ڈی ایم اے کے اعداد و شمار کے مطابق 2010ءکے سیلاب میں پنجاب کے80لاکھ افراد متاثر ہوئے اور صوبے کو 900 ملین روپے کا معاشی نقصان پہنچا۔سندھ میں 36 لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 1300 ارب روپے کا نقصان ہوا۔خیبر پختونخوا سب سے زیادہ متاثر ہوا۔صوبہ میں ایک ہزار سے زائد افراد جان سے گئے جبکہ مالی نقصان کا تخمینہ 1300ملین تھا۔ بلوچستان میں سات لاکھ افراد متاثر ہوئے اور 190 ملین کا مالی نقصان ہوا۔2010کے ان نقصانات کے بعد موسمیاتی تبدیلیوں میں روز بروز شدت آتی گئی اور ہر سال ملک کا کوئی نہ کوئی حصہ اس کا نشانہ بنتا رہا۔موسمیات کی عالمی تنظیم (WMO)کے مطابق گلوبل وارمنگ کی وجہ سے تیزی سے پگھلتے گلیشئر پاکستان میں شدید سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں۔کوہ سلیمان سے اترنے والے سیلابی پانی نے میانوالی، راجن پور،اور ڈیرہ غازی خان کے علاوہ خیبرپختونخوا کے علاقوں چھانگلہ، مردان، بونیر، سمیت کئی علاقوں میں تباہی پھیلا دی ہے۔اسی طرح دریائے سندھ کے اطراف میں قریب 100 کلو میٹر کی پٹی پر بڑے شہر،صنعتی ادارے اور زرعی رقبے موجود ہیں ،جو سیلابی صورتحال سے مستقل دو چار رہتے ہیں۔پاکستان کے شمالی علاقہ جات بشمول بلتستان اور چترال کے بالائی حصوں میں موجود اونچے پہاڑوں کی چوٹیوں پر موجود برف اور منجمد گلیشیر تیزی سے پگھل کر جھیلوں میں تبدیل ہو رہے ہیں ۔جب یہ جھیلیں انتہائی سطح پر پہنچتی ہیں تو اچانک پھٹ جاتی ہیں اور انکے پھٹنے کے بعد اونچے پہاڑ کی چوٹی سے لاکھوں گیلن پانی کیساتھ بڑے بڑے پتھر ایک خطرناک سیلاب کی صورت میں نیچے آتے اور آبادی کو بہا کر لے جاتے ہیں۔اس قسم کے سیلاب سے انسانی آبادی کے ساتھ ساتھ دریائوں پر بنے پل اور پانی سے چلنے والے چھوٹے بڑے بجلی گھر بھی تباہ ہوئے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کراچی میں ہیٹ ویو کی صورت میں ظاہر ہوئے 2015 کے بعد ہر سال اسکی وجہ سے کراچی اور سندھ میں کئی اموات رپورٹ ہوتی ہیں۔فوگ بھی موسمیاتی تبدیلی کا ہی ثمر ہے۔اس سال مون سون غیر معمولی طورپر طویل اور جان لیوا ثابت ہو ا ہے۔ 14جون سے لیکر اب تک بلوچستان کے 27اضلاع میں تین لاکھ ساٹھ ہزار افراد متاثر ہوئے اور 207افرادجاں بحق ہوئے۔خیبر پختونخوا کے 9 اضلاع میں 74 بچوں سمیت 132افراد لقمہ اجل بنے۔ سندھ کے 17 اضلاع میں 66بچوں سمیت 141افراد موت کے گھاٹ اتر گئے جبکہ پنجاب کے تین اضلاع میں 141اموات ہوئیں۔ انفر اسٹرکچر اور معاشی نقصان اس سے الگ ہے۔پہلے سے ہی تباہ حال معیشت کیلئے یہ نقصان ناقابلِ تلافی ہے۔اس مشکل وقت میں وسیع تر سیاسی مشاورت کی ضرورت ہے۔بیرون ملک جلاوطنی کاٹنے والے میاں نواز شریف کی نااہلی ختم کرکے انہیں ملک میں کردار ادا کرنے کا موقع دینا چاہئے اور عمران خان کو نا اہل کرنے سے اجتناب کرنا چاہئے تاکہ دو بڑی سیاسی قوتوں کو یکساں مواقع ملیں اور دونوں کی سیاسی دانش سے فائدہ اٹھایا جاسکے۔

تازہ ترین