• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور سیاسی پارٹیوں کی مقبولیت میں اتار چڑھائو پر مختلف سیاسی مبصرین نے تبصرے کئے ہیں ۔پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ جس پارٹی کو کچھ عرصہ پہلے انتخابات جتوائےگئے تھے ، وہ آج غیر آئینی طور پر انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہے ۔ اس کے ساتھ ہی معروضی حالات نے تحریک انصاف کی یہ پوزیشن بنادی ہے کہ وہ عوام کی جمہوری اور انصاف پسند امنگوں کامحور بھی بنتی جا رہی ہے۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد تحریک انصاف کی طرف سے چلائی جانے والی احتجاجی مہم میں لاکھوں لوگوں کی پرجوش شرکت اور اس کے ہر دم جارحانہ انداز سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ عمران خان سیاست کے تمام دائو پیچ استعمال کر کے ، چاہے وہ ہر قسم کی اخلاقیات سے ماورا ہی کیوں نہ ہوں، دوبارہ حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔عوام کی اچانک حمایت اور عمران خان کی ظاہری پوزیشن کو اتنی تیزی سے بدلتا دیکھ کر بعض دانشور وں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمارے عوام میں کوئی سیاسی شعور ہی نہیں۔ وہ ہمیشہ منفی انداز میں سوچتے اورجذباتی نعروں کی رو میں بہہ جاتے ہیں یعنی کہ ہماے عوام میں کوئی مستقل مزاجی نہیں اور یہ کہ جمہوریت ہمارے ملک کا خاصہ نہیں ۔

تحریک انصاف کی حکومت کوئی بنیادی تبدیلی اور ترقی نہ لا سکی بلکہ مہنگائی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے ،جس سے بائیس کروڑ عوام آج بھی بری طرح متاثر ہو رہے ہیں،دوسری طرف پی ڈی ایم اور دوسر ی حکومتی جماعتوں کے درمیان بھی ایک غیر فطری اتحاد چل رہا ہے اور ان کی قد ر مشترک عمران خان کو ہر قیمت پر اقتدار سے دور رکھنا ہے۔ پی ڈی ایم اور موجودہ حکومت نے تحریک انصاف کی واضح سیاسی خامیوں مثلاًجمہوری حقوق کی پامالی ، آئین سے اجتناب ،بلوچستان کےسنجیدہ مسائل اور مہنگائی کے عروج پر پہنچ جانے جیسے مسائل اٹھانے کی بجائے عوام کو نئے معاشی مسائل سے دوچار کر دیا ہے اور اب تک کوئی قابل اعتبار اور ٹھوس معاشی نعم البدل نہیں پیش کیا ۔آج پاکستان کا سیاسی ارتقا بہت حد تک تنزل پذیری کا شکار ہو چکا ہے اور اس کی اصل وجہ سماج میں جمہوریت اور آئین کےتسلسل کا موجودہ نہ ہونا ہے۔ہم مانیں یا نہ مانیں، عوام کا ایک حصہ اس حد تک متنفر ہو چکا ہے کہ اسکی نظر میں جمہوری حقوق کی بحالی اور عمران خان کا ہٹانا ہم معانی ہو چکے ہیں۔دوسری طرف تحریک انصاف نے بھی اپنے تقدس کا نقاب بالکل اتار دیا ہے جو ایک لمحے کیلئے بھی اس بات پر غور کرنے کو تیار نہیں کہ وہ سیاست کو نئی افراتفری جس کی طرف لے کر جا رہے ہیں ، جونہ صرف جمہوریت بلکہ وفاق کے مستقبل کیلئے بھی خطرناک ہے۔عمران خان بہت خوبی کے ساتھ سیاست میں ایک ہی وقت میں مختلف متضاد بیانیے اپنائے ہوئے ہیں اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ ان کے ساتھی ہر قسم کے بیانیے کو قبول بھی کر رہے ہیں۔ پہلے اپریل میں امریکہ کے خلاف بھرپور مہم چلائی ، جس سے عوام میں انہیں بہت پذیرائی ملی اور اب خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے امریکہ کے سفیر کا پر جوش خیر مقدم کیا اور سینکڑوں جدید گاڑیاں تحفے میں قبول کیں لیکن عمران خان نے امریکی حکومت سے گاڑیوں کا تحفہ لینے کو کسی قسم کی غیرت سے نہیں جوڑا۔ اس کے علاوہ امریکہ میں موجود تحریک انصاف کے کارکنان کو امریکہ مخالف نعروں سے اجتناب کرنے کی ہدایت دی گئی۔تحریک انصاف اندرونی طور پر ایک طرف توامریکہ سے معافی تلافی کی کوشش کر رہی ہے اور دوسری طرف اس نے 25ہزار ڈالرز فیس ادا کرکے امریکہ میں لابنگ کرنے والی فرم کی خدمات حاصل کر لی ہیں تاکہ امریکی عوام اور میڈیا میں تحریک انصاف کا امیج بہتر ہوسکے۔

ایک طرف امریکہ کے خلاف اپریل سے چلنے والی مہم اور دوسری طرف ایک فرم کی خدمات حاصل کرنا درحقیقت امریکی انتظامیہ سے حکومت میں واپس آنے میں مدد حاصل کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ در پردہ وہ نیوٹرلز کے ساتھ بھی ایسا ہی موقف اختیار کر رہے ہوں یعنی ایک طرف عوام میں ان کے خلاف سوشل میڈیا ٹرولنگ کی مہم اور دوسری طرف اندرون خانہ ان سے تعلقات بحال کرنا۔ عمران خان اس سے پہلے ایسا ہی موقف طالبان کے بارے میں اختیار کرتے رہے ہیں جس سے القاعدہ کے رہنمائوں سے ان کی محبت کا اظہار ہوتا تھا۔ الظواہری کے کابل میں ڈرون حملے میں قتل سے قطر معاہدے کی خلاف ورزی ہوئی ہے جس سے افغانستان پر پابندیاں بھی لگ سکتی ہیں لیکن یہ عجیب بات ہے کہ صرف تحریک انصاف کو ان کی موت پر زیادہ تشویش ہوئی !عمران خان نے ہمیشہ طالبان اور القاعدہ سے کسی نہ کسی طرح ہمدردی کو اس طرح استعمال کیا کہ پختوانخوا میں انہیں مقبولیت حاصل ہوئی۔عمران خان اور انکے ساتھی ایک ایساخطرناک سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں جس کی انتہا محض اقتدار حاصل کرنا ہے ، اس میں پاکستانی اداروں ، آئین ، سیاسی ارتقا اور جمہوریت کوچاہے جتنا بھی نقصان پہنچے ، انہیں اس سے کوئی سروکار نہیں ۔

سیاسی طور پر پاکستان کی 75سالہ تاریخ میں ایسے کئی کھیل کھیلے گئے ہیں جس سے نہ صرف ملک دو ٹکڑے ہوا بلکہ اقتصاد ی اور سماجی لحاظ سے بھی شدید تنزلی کا شکار ہوا۔ پاکستان کے دانشوروں اور میڈیا کے بااثر لوگوں کو ہر قیمت پر عمران خان سے ملاقات کر کے انہیں آئین اور سویلین سپرمیسی کا پابند بنانا ہوگا ورنہ جو نفرت وہ ہمارے نوجوانوں میں پیدا کر رہے ہیں ، وہ پاکستان کو مزید سیاسی اور اقتصادی تنزلی میں دھکیل دے گی۔

تازہ ترین