• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کی ٹھیک دو تہائی آبادی یعنی 66 فیصد شہری اقوام متحدہ کی طے کردہ تعریف ( 15 سے 33 برس) کی روشنی میں نوجوان شمار ہوتی ہے۔ قریب پندرہ کروڑ کی اس نوجوان آبادی کے عقب میں 15 برس سے کم عمر بچوں کا ایک لشکر جرار بھی کمیں گاہوں سے روانہ ہو چکا ہے۔ اماں کیسی کہ موجِ خوں ابھی سر سے نہیں گزری۔ علم معاشرت کے ماہرین کہتے ہیں کہ کسی ملک میں نوجوان آبادی ایک اجتماعی اثاثہ بھی ہو سکتی ہے اور سماجی / معاشی ٹائم بم بھی۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، قائد اعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں ہم نے یہ ملک قومی ترقی نہیں بلکہ ذاتی اثاثوں از قسم ہائوسنگ سوسائٹی کے حصول کی غرض سے قائم کیا تھا لہٰذا نوجوان آبادی کو آتش فشاں ہی سمجھا جائے، اور آتش فشاں بھی خوابیدہ نہیں بلکہ آتش بیاں، کف در دہن اور لڑنے مرنے پر تیار۔ سامراج نے موبائل فون اور سوشل میڈیا کی صورت میں ایک جدید رندہ تراشا ہے۔ سادہ اصول ہے کہ علم کی تخلیق میں شریک ہوئے بغیر ٹیکنالوجی پر دسترس مثبت کی بجائے منفی نتائج دیتی ہے۔ وجہ یہ کہ تخلیق علم کا عمل اجتماعی اقدار میں مسلسل ترمیم اور تجدید کا تقاضا کرتا ہے۔ اس سرگرمی سے منقطع گروہ مطلوبہ اقداری مطابقت کی عدم موجودگی میں جدید ٹیکنالوجی کو قدامت پسندی اور پیوستہ مفادات کے آلات میں بدل دیتا ہے۔ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے روز مرہ مکالمے کی بدزبانی ذرائع ابلاغ سے ہوتی ہوئی سیاسی اجتماعات تک آ پہنچی ہے۔ آپ کے نیاز مند کی پیشہ ورانہ ذمہ داری میں روزانہ کم و بیش دو درجن تحریریں دیکھنا شامل ہے۔واقعاتی درستی تو ایک طرف رکھئے، علمی روایت سے ناآشنائی پر بھی تین حرف بھیجئے، تحریر کا افلاس تو خیر فکری نارسائی کا ثمر ہے، حیرت ہے کہ قلم اٹھانے والوں کی لغت کیسے کیسے جواہر دریافت کر رہی ہے، ایسے پوچ اور بے ہودہ الفاظ دراتے ہوئے اخباری صفحات، ٹیلی وژن اسکرین اور سوشل میڈیا پر چلے آئے ہیں کہ ناطقہ سر بہ گریباں ہے۔ سیاسی مباحث میں روٹی بیٹی یعنی گالی گفتار کے سوا کچھ باقی نہیں۔ کیوں نہ ہو، دلیل کے عجز کو گالی کا پردہ دیا جاتا ہے۔ دشنام اور عریاں گوئی کے اس طوفان سے کوئی ریاستی منصب، تمدنی مقام، صنفی احترام اور حرف قانون محفوظ نہیں۔ اگر زبان تمدن کے عروج و زوال کا میقاس ہے تو جان لیجئے کہ ہم غیر متمدن ہو چکے۔ اس تحریر کا مقصد نوجوان نسل کی بے راہ روی کا نوحہ لکھنا نہیں بلکہ یہ دیکھنا ہے کہ اس افتاد کی جڑیں کہاں ہیں۔

آج کی نوجوان نسل کے والدین اب پچاس سے پچپن کے پیٹے میں ہیں۔ گویا ستر کی دہائی میں پیدا ہوئے۔ ضیا الحق کا مارشل لائی عذاب اس زمیں پر اترا تو یہ لوگ اسکول کے ابتدائی درجوں میں زیر تعلیم تھے۔ ایسا نہیں کہ تب اس ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہتی تھیں۔ پولیس شائستگی کا نشان تھی۔ عدالت انصاف کی ضمانت تھی۔ استاد علم اور اہلیت میں ابنِ رشد سے ٹکر لیتا تھا۔ تاہم معاشرتی رکھ رکھائو کے کچھ آثار ابھی باقی تھے۔ سیاسی مخالف کو صاحب کہہ کر مخاطب کیا جاتا تھا۔ بدزبانی کے اکا دکا نمونے موجود تھے لیکن غالب تہذیب یہی تھی کہ ذوالفقار علی بھٹو 15 اپریل 1977 ء کی شام سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات کے لئے اچھرہ آئے تو جماعت اسلامی کے کچھ کارکنوں نے ناشائستہ نعرہ بازی کرنا چاہی۔ سید صاحب نے انہیں فوراً روک دیا۔ چند برس بعد شادی کی ایک تقریب میں نوابزادہ نصراللہ خان اور ضیا الحق کا اتفاقاً آمنا سامنا ہو گیا۔ جنرل صاحب نے از رہ تواضع خیریت دریافت کی۔ نوابزادہ صاحب نے برجستہ شعر پڑھا۔’’ ان کے عہد شباب میں جینا / جینے والو! تمہیں ہوا کیا ہے؟ ‘‘یہ وہ دن تھے جب ایم آر ڈی کے ہزاروں کارکن اندھیرے عقوبت خانوں میں جمہوریت کی کرن ڈھونڈ رہے تھے۔ جنرل ضیا نے سینٹ اسٹیفن کالج دہلی میں تعلیم پائی تھی۔ سمجھ تو گئے کہ نوابزادہ نے نیزے کی انی پہ رکھ کر جواب دیا ہے اور جواب بھی ایسا کہ برہان قاطع۔ بدترین سیاسی مخالفت میں بھی یہ ہماری تہذیب تھی۔

پاکستان کی آئندہ نسلوں کو سیاسی شعور اور تہذیبی روایت سے محروم کرنا ضیا الحق کا بنیادی ہدف تھا۔ اس کے راستے سجھانا لیفٹیننٹ جنرل مجیب الرحمٰن کا کام تھا۔ کالونی ٹیکسٹائل مل ملتان کا قتل عام ٹریڈ یونین کے متحرک ادارے کا خاتمہ قرار پایا۔ تعلیمی اداروں میں روشن خیال اور ترقی پسند اساتذہ کی فہرستیں تیار کر کے انہیں تڑی پار کیا گیا۔ نصاب کی تشکیل نو کی گئی۔ بنیادی مقصد آئندہ نسلوں میں تاریخ، سیاسی ارتقا اور معاشی حقائق میں شعور ی تناسب ختم کرنا تھا۔ اکتوبر 1979 ء سے سیاست جرم قرار پا چکی تھی۔ ستمبر 1983 ء میں جمہوریت کے نام لیوا 55 ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں پر ذرائع ابلاغ کے دروازے بند کر دئیے گئے۔ فروری 1984 ء میں طلبا تنظیموں پر پابندی لگا دی گئی۔ ان تمام اقدامات میں آمریت کے حامی اور قدامت پسند دھارے کو ترجیحی بنیادوں پر رہنما کردار دیا گیا۔ 80 ء کی دہائی میں اجتماعی ذمہ داری کے ان سرچشموں سے بے نیاز ہو کر ذاتی مفاد اور پیشہ ورانہ ترقی کی منزلیں پانے والی نسل نے یہ پندرہ کروڑ نوجوان مخلوق پیدا کی ہے جو بصیرت سے محروم اور بدزبانی میں طاق ہے اور منافقت، منافرت اور قطعیت کے آلات سے لیس ہو کر ہماری سرزمین پر اتری ہے۔ ہماری نوجوان نسل لائق الزام نہیں۔ ان کی پیشرو نسل نے انتظام ہی ایسا کیا تھا کہ دلیل جلاوطن ہو جائے۔ تہذیب کے سر سے چادر چھن جائے۔ انصاف کا دروازہ تیغہ کر دیا جائے۔ دانش حرفِ دشنام ٹھہرے اور جہالت سیالکوٹ سے لے کر حیدرآباد کی سڑکوں تک بلا روک ٹوک راج کرے۔ آخر میں گزارش ہے کہ عنوان میں مردہ خراب ہونے کا محاورہ استعمال ہوا ہے۔ اسے، خاکم بدہن، موت سے تعبیر نہ کیجئے گا۔ منیر نیازی نے کہا تھا

دم بخود کیوں ہے خزاں کی سلطنت

کوئی جھونکا، کوئی موج غم چلے

تازہ ترین