• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھند کی تہ سے ایک بدلی جھانک رہی ہے/کوہ ماران کی بلندیوں سے/ابریوں لگتا ہے جیسے نتھا کی پگڑی ہے/دھاریں تیری خوشبو میں بسے ہوئے بال/بوندیں گویاتیرےترکش کے تیر ہیں/رات کو چمکنے والی بجلی تیری کمر سے بندھی جوہردار تلوار/اور رعد کی گرج تیری بندوق کی آواز ہے/گھنگھور گھٹائو تم سے میری درخواست ہے/لانڈو کی وادی کو دھونا تمہارا فرض ہے/تم شہیدوں کی زیارات کو خوبی سے دھو ڈالو/تھوڑی دیر کے لئے موسلا دھار بوندیں برسائو/تم خوشبوئوں سے معمور دھاریں جھکائو/طوفانی ہوائوں کی گونج اور آوازوں سے/دولہے جیسی شباہت کا نتھا نکل آئے گا

(قدیم بلوچی شاعری۔ نظم۔ سیمک اور نتھا۔ مرتّبہ۔ میر خدا بخش بجارانی مری بلوچ۔ نظر ثانی۔ میر شاہ نواز مری)

بارشوں کا موسم ہے۔ یہ شاعری ان زمانوں کی ہے جب ہم انسانوں نے نہ تو اتنی آبادی بڑھائی تھی۔ نہ درخت کاٹے تھے۔ نہ ہی کنکریٹ کے جنگل کسی منصوبہ بندی کے بغیر کھڑے کئے تھے۔

اب حضرت انسان نے، پاکستان کے یکے بعد دیگرے آنے والے خود غرض، لالچی، حکمرانوں نے اس عظیم مملکت کے ساتھ وہ سلوک کیا وہ ظلم ڈھائے کہ اب آسمانوں سے اترتا میٹھا پانی انسانوں کے لئےتباہی بربادی کا سبب بن رہا ہے۔14جون سے آسمان تو کھل کر برس رہا ہے کہ ہماری پیاس بجھا سکے، ہمارے کھیتوں کو سیراب کرسکے، ہمارے خالی تالاب کنوئیں بھر سکے، ہمارے پانی کے ذخیروں کو ، ڈیموں کو لبریز کرسکے مگر ہم نے تو ایسے انتظامات ہی نہیں کئے۔ بڑے ڈیم تعمیر کئے نہ چھوٹے۔ شہروں کے آس پاس تالاب بنائے نہ کنوئیں کھودے۔

آج ہم نے بات شروع کی ہے۔ بلوچی شاعری سے۔ بلوچستان، غیور بلوچوں کا۔ با شعور پختونوں کا وسائل سے معمور صوبہ۔ اس خونیںبرسات میں سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے۔ ویسے تو پاکستان کے چاروں صوبوں اور دونوں اکائیوں میں بھی توقع سے زیادہ بارشیں ہوئی ہیں۔ دنیا بھر کے ماحولیاتی ادارے موسم کی تبدیلی سے خبردار کرتے رہے ہیں۔ ہم نے وزارتیں بھی بنالی ہیں۔ موسم کو نزاکت کا حوالہ سمجھتے ہیں اسلئے یہ وزارت صنف نازک کے سپرد کی جاتی ہےلیکن اب کے تو بادل اس زور سے گرجے ہیں اور بجلیاں ایسے کڑکی ہیں کہ بڑے بڑے مرد بھی کانپ رہے ہیں۔ سیلابی ریلوں نے ملک کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ لاکھوں ہم وطن بے گھر ہوچکے ہیں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کے کنارے کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔ فلاحی ادارے اپنے طور پر مدد میں مصروف ہیں۔ الخدمت کے رضا کار دور دراز علاقوں میں سرگرم دکھائی دیتے ہیں۔ مقامی طور پر مخیّر حضرات بھی راشن بانٹ رہے ہیں۔

بہت دُکھ ہورہا ہے۔ اتنی قیامت خیز آفت کے دوران۔ ہمارے سیاسی حکمراں، سیاسی جماعتیں، ریاستی ادارے، اسلام آباد میں معرکہ آرائی میں الجھے ہوئے ہیں۔ ریاستیں عوام کی جان و مال کی حفاظت کے لئے وجود میں لائی جاتی ہیں مگر 14 جون سے لے کر اب تک انتہائی خراب موسم میں۔ منہ زور طغیانیوں کے مقابلے میں ریاست اس طمطراق اور طنطنہ کے ساتھ نظر نہیں آئی۔ جس کا مظاہرہ اپنے ناقدین اور مخالفین پر چڑھائی کے دوران کیا جاتا ہے۔

یہ رونا دھونا اور بعد از مرگ واویلا بہت ہوچکا۔ اب کچھ عملی اقدامات کریں۔ بلوچستان میں اس وقت تباہی بھی بہت زیادہ ہے اور محرومی کا احساس بھی۔ پھر راستے بھی بند ہیں، سڑکیں طوفانی ریلے اکثر مقامات پر بہاکر لے گئے ہیں۔ اس لئےآپ زلزلے کے دنوں کی طرح سامان راشن سے بھرے ٹرک لے کر ہر آفت زدہ مقام تک نہیں پہنچ سکتے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی۔ حکومت پاکستان اپنے طور پر کارروائیاں کررہے ہیں لیکن کرپشن کی روایات کا غلبہ ہے۔ اسلئے عام طور پر یہ اعتماد نہیں ہوتا کہ سرکار کو دی ہوئی زکوٰۃ اور عطیات مستحقین تک پہنچیں گے یا نہیں۔

مزید بارشوں کے اعلانات بلوچستان میں اور زیادہ خوف پھیلارہے ہیں۔ غیر معمولی صورت حال ہے۔ بلوچستان میں آباد ہمارے ہم وطن ہماری ہمدردیوں اور مالی تعاون کے منتظر ہیں۔ جہاں تک راستے کھلے ہیں۔ وہاں تک ہمیں امداد لے کر پہنچنا چاہئے۔ جہاں نہیں پہنچ سکتے۔ وہاں آن لائن تعاون کیا جائے۔ آپ کے پاس جو بھی رابطے ہیں۔ فون نمبرہیں۔ ای میل ہیں۔ فیس بک کی دوستی۔ ان سے فوراً لائن ملائیں۔ آس پاس کی خبر لیں۔ آن لائن جو بھی عطیہ کرسکتے ہیں۔ وہ ارسال کریں۔

بلوچستان ہمارا مستقبل ہے۔ یہاں اللّٰہ تعالیٰ نے بے حساب قیمتی وسائل عنایت کئےہیں۔ یہاں کے ہم وطن نوجوان بہت باشعور اور بابصیرت ہیں۔ اپنی اقدار، روایات اور اصولوں پر فخر کرتے ہیں۔ بلوچستان میں اپنے رابطوں سے میں وقتاً فوقتاً دریافت کرتارہتا ہوں۔ حالات بہت زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ انہیں اس وقت اسلام آباد کے جلسوں جلوسوں مقدمات، ایک ایک دن میں کئی کئی پریس کانفرنسوں سے کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ تو اس توقع میں ہیں کہ کوئی چینل ان کی بد حالی دکھائے۔ مقامی اور عالمی اداروں سے بڑے پیمانے پر امداد کی، بھاری مشینری کی، ماہرین کی رائے حاصل کرنے کےلئے میراتھن منعقد کرے۔ میں اپنے چند رابطوں کے فون نمبر دے رہا ہوں۔ ان سے پوچھے بغیر کیونکہ میں اپنے اندر سے یہ محسوس کررہا ہوں کہ پاکستان کے سب علاقوں سے اہل قلم کا۔ درد مندوں کا آپس میں تبادلۂ خیال ہونا چاہئے تاکہ بلوچستان کا حقیقی احوال سامنے آئے۔ مجھے امید ہے کہ آپ یہ تحریر پڑھتے ہی اپنا موبائل اٹھائیں گے۔ ان عظیم پاکستانیوں سے صورت حال دریافت کریں گے۔ منیر بلوچ: 0312-9389123۔سابق سرکاری افسر، ادیب۔ ایوب بلوچ: 0333-7833505۔ انسٹی ٹیوٹ آف بلوچستان اسٹڈیز، آثار قدیمہ کے ماہر۔ پناہ بلوچ:0313-5415054۔کئی کتابوں کے مصنّف۔وحید عامر بلوچ: 0332-2908542 نوشکی میں تدریس میں مصروف۔بہت امدادی کام کررہے ہیں ۔ ڈاکٹر عبدالمالک 0300-8113202 سابق وزیر اعلیٰ۔ جناب غوث بخش بارزوئی: 0333-8005555سابق وزیر اعلیٰ۔ عبدالمتین اخونزادہ:0333-7803221 ۔ بلوچستان میں استحکام کے لئے بہت سرگرم۔ ہارون خان موسیٰ خیل :0333-7098045۔ جواں عزم قلمکار۔ قیوم کاکڑ : 0313-8464691۔ فلاحی سرگرمی میں پیش پیش۔ پروفیسر خورشید افروز لورالائی۔ 0333-7991444۔ کئی کتابوں کے مصنّف۔ بابرک کارمل جمالی :0333-7509195۔جواںعزم صحافی۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں موجود یہ رابطے آپ کو حقائق سے با خبر کریں گے۔ آپ اپنے اپنے حلقۂ احباب سے متاثرین کی عملی امداد کرواسکتے ہیں۔ میں نے اس بار یہی سوچا کہ اپنا فلسفہ جھاڑنے کی بجائے کچھ عملی خدمت انجام دی جائے۔ اللہ تعالیٰ یقیناً کرم فرمائے گا اور یہ برسات پھر خوشگوار ہوجائیگی۔ کوئی سیمک پھر گھنگھور گھٹائوں سے مخاطب ہورہی ہوگی۔

تازہ ترین