• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاست کی بے حسی ملاحظہ کریں ۔ سیلاب نے پاکستان بھر میں بالعموم جب کہ بلوچستان، سندھ ، جنوبی پنجاب کے چند علاقوں، کشمیر اور گلگت بلتستان میں بالخصوص تباہی مچا کر رکھ دی ہے ۔ سینکڑوں افراد جاں بحق ہو چکےہیں اورہزاروں گھر تباہ ہونے سے لاکھوں کی تعداد میں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، مال مویشی بھی پانی میں بہہ گئے ہیں۔ کچھ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا کے ذریعے تباہی و بربادی کے جو مناظر دکھائی دے رہے ہیں وہ دل کو انتہائی افسردہ بلکہ زخمی کر رہے ہیں۔ سڑکیں ، پل اور کئی ڈیم غائب ہوگئے ہیں ، انفراسٹرکچر بُرے طریقے سے متاثر ہوا ہے اور بارشیں ہیں کہ رُکنے کا نام ہی نہیں لے رہیں۔

اس آفت سماوی کے متاثرین میں بچے، عورتیں اور بوڑھے سب ہی شامل ہیں اور انتہائی تکلیف میں ہیں۔ اس سال کی بارشوں نے وہ تباہی مچائی ہے کہ جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی لیکن ہمارے سیاستدان اپنی اپنی سیاست میں ایسے مگن ہیں کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔

حکومتیں اور وزراء عمومی طور پر فوٹوسیشن میں مصروف ہیں لیکن اس آفت سے متاثرہ لاکھوں خاندانوں کی دیکھ بھال اور اُن کے مالی نقصان کو پورا کرنے کیلئے ابھی تک ایک بھی ایسی میٹنگ نہیں ہوئی، جس میں ہمیں وزیراعظم اور صوبائی وزرائے اعلیٰ دیگر ذمہ داروں کے ساتھ بیٹھے کوئی متفقہ حکمتِ عملی بناتے ہوئے نظر آرہے ہوں کہ کیسے متاثرین کی مدد کی جائے، کیسے اُن کی زندگیوں کو سماجی اور معاشی طور پر بحال کیا جائے اور تباہ شدہ انفراسٹرکچر کو دوبارہ تعمیر کیا جائے؟

اس وقت مرکز میں ن لیگ کی قیادت میں اتحادی جماعتوں کی حکومت ہے تو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف یا اُن کی حمایت یافتہ حکومتیں ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی اور بلوچستان میں بھی مختلف جماعتوں کی حکومتیں ہیں۔

سیلاب نے کم و بیش سارے پاکستان اور پاکستانیوں کو متاثر کیا ہے ،چنانچہ ان تمام حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کا اخلاقی و حکومتی فریضہ ہے کہ اپنے اپنے سیاسی اختلافات اور جھگڑوں کو چند ایک ہفتوں کے لئےایک طرف رکھ کر سیلاب زدگان کی مدد اور اس آفت سے ہونے والی تباہی سے نبٹنے ، گھروں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر اورمتاثرین کی معاشی بحالی کے لئےدن رات ایک کر دیں۔

 وزیراعظم شہباز شریف کو تمام وزرائے اعلی بشمول وزیر اعلیٰ پنجاب ،خیبر پختون خوا، آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سے خود بات کر کے فوری بین الصوبائی کانفرنس بلانی چاہئے تاکہ تمام ممکنہ وسائل کو سامنے رکھ کر اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لئے ایک قومی حکمتِ عملی وضع کی جائے۔ عمران خان کا فوکس بھی اپنی احتجاجی سیاست تک ہی محدود ہے۔

 اُنہوں نے ابھی تک اپنی تقریروں اور پریس کانفرنسوں میں سیلاب اور اس سے پیدا ہونے والی صورتحال کا کوئی خاص ذکر نہیں کیا۔ خان صاحب کو خود میدان میں نکلنا چاہئے، اُن کو بلوچستان، سندھ، کے پی ، جنوبی پنجاب، کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کا دورہ کرنا چاہئے اور متاثرین کی امداد کے لئے عوام سے عطیات جمع کرنے کی مہم چلانی چاہئے لیکن وہ تو احتجاج اور ٹکراؤ والی سیاست میں ایسے مصروف ہیں کہ کسی اور طرف دیکھنے کا اُن کے پاس وقت ہی نہیں۔

 اُدھر سیلاب سے سینکڑوں افراد جان کی بازی ہار چکےہیں، لاکھوں اپنے گھر، مال مویشی بلکہ سب کچھ کھو چکے ہیں لیکن وفاقی اور پنجاب کی حکومتیں اپنے اپنے مخالفین کے خلاف مقدمات بنانے اور گرفتاریاں کرنے میں مصروف ہیں۔ سیاست کی یہ سردمہری اور بے حسی انتہائی مایوس کن ہے۔

سوشل میڈیا میں سیلاب سے جاں بحق ہونے والے بچوں اور بڑوں کی کیچڑ سے لتھڑی میتوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کچھ فلاحی تنظیمیں، خصوصاً اسلامی فلاحی تنظیمیں جہاں جہاں ممکن ہے سیلاب زدگان کی ہر ممکن مدد کر رہی ہیں لیکن یہ سانحہ اتنا بڑا ہے کہ اس کےلئے ریاست کو فعال ہونا پڑے گا، تمام حکومتوں کو یکجا ہو کے مشترکہ حکمتِ عملی بنانا پڑے گی۔ کیا ایسا ہو پائے گا یا نفرت کی سیاست کی ہی جیت ہو گی اور سیلاب کے متاثرین اور مرنے والوں کو اُن کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا؟

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)

تازہ ترین