• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کا کمیٹی روم نمبر 10شرکاء سے بھرا ہوا تھا جس میں مختلف سفارتخانوں کے نمائندے موجود تھے۔ گزشتہ ہفتے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ فورم کی جانب سے’ 2014 میں نیٹو فورسز واپسی کے اثرات‘ کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں ہونیوالے مباحثے میں اراکین اسمبلی، سفارتکار، صحافی، اسکالر سب ہی حصہ لینا چاہتے تھے۔ مباحثے میں ابتداء میں ہی 2014 کے روڈ میپ اور بعدازاں کی صورتحال کے حوالے سے مقررین میں اتفاق رائے پیدا ہوگیا۔ایک افغان مقرر نے صاف گوئی سے کہہ دیا کہ ’ابھی سنجیدگی سے کچھ بھی طے نہیں کیا گیا جس کا مطلب ہے کہ ایک تباہی ہماری منتظر ہے۔ افغانستان سے برطانیہ آنے والے ایک کاروباری شخص حامد غنی نے کہا کہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ بین الاقوامی برادری کے انخلاء کے بعد افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں نہیں ہوں گی۔ انہوں نے وارد ہونے کی منتظر، ناگہانی آفت کے حوالے سے خبردار کیا۔ انکے مطابق 2014 کے بعد افغانستان میں خانہ جنگی کا قوی امکان ہے، افغانستان کو اسی مقدر کا سامنا ہے جوکہ امریکی حملے سے قبل تھایعنی ایک ناکام ریاست ہوجانا۔ افغان سفیر داؤد یار نے یہ کہہ کر مستقبل کے حوالے سے ایک مثبت نقطہ نظر پیش کیا کہ گزشتہ دہائی میں ہونیوالی تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ انکا ملک ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے جس کا رخ واپسی کی جانب موڑنا مشکل ہے، لیکن انہوں نے عالمی برادری سے انکے ملک کے مکمل طور پر علیحدہ نہ ہونے کی استدعا کی اور کہا کہ جن لوگوں کے نزدیک مسائل کے حل کا جلد امکان ہے وہ ناکام ہونگے۔ سابق وزیر دفاع اور لبرل ڈیموکریٹ رکن پارلیمنٹ نک ہاروے نے افغانستان کی تاریک صورتحال کے حوالے سے افغان سفیر کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ 2014میں انخلاء کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مغرب انکے ملک سے منہ موڑ لے گا۔
تقریب میں سب ہی متفق تھے کہ افغانستان پھر ایک اہم دوراہے پر ہے۔ ابھی کیے ہوئے فیصلے اور اقدامات اس بات کا تعین کریں گے کہ آیا افغانستان میں رتی برابر بھی امن و استحکام ہوسکے گا یا یہ ملک انتشار کا شکار ہوجائیگا۔ ان سب نے بین الاقوامی برادری پر کچھ ذمہ داری عائد کرتے ہوئے زور دیا کہ ’یہ یا تو افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کیلئے اقدامات کرسکتی ہے یا اپنی ناکام پالیسی کا تسلسل جاری رکھ سکتی ہے اور انہوں نے امریکہ کے صدر حامد کرزئی سے بغل گیری کو ضرررساں قرار دیتے ہوئے انہیں مسئلے کا حل نہیں بلکہ اس کا حصہ گردانا۔ تاہم،سامعین میں بیٹھے ہوئے برطانوی اراکین پارلیمنٹ اور سفارتکاروں نے کہا کہ اپنی تقدیر کا فیصلہ کرنا خود افغانوں پر منحصر ہے کیونکہ بین الاقوامی برادری زیادہ کچھ نہیں کرسکتی۔ اس روگردانی پر مبنی موقف افغان مقرر کی جانب سے سخت ردعمل کا موجب بنا، جنہوں نے کہا کہ’ جب معاملات خراب ہوجاتے ہیں تو ہم سے کہا جاتا ہے کہ اب اپنے معاملات کی درستگی آپ پر منحصر ہے۔ اس تنقیدی جواب کا نشتر جس جانب برسایا گیا وہاں سے کوئی ردعمل نہ پیدا ہوا۔برطانیہ کے کابل کیلئے سابق سفیر نے کہا کہ’ ہم ڈنمارک کے شہزادے کے بغیر بستی پر گفتگو کررہے ہیں‘ کمرے میں دوگھنٹے کی بحث کے بعد یہ ظاہر ہونے لگا کہ کس کا موقف غالب تھا، اس سے انکی مراد طالبان تھے۔ اس لیے جب امن مذاکرات کی جانب توجہ مرکوز ہوئی تو مقررین کی جانب سے کی جانے والی پیشگوئیاں معنی خیز نہیں تھیں۔افغان سفیر کے پاس دوسرے فریق کی عدم سنجیدگی کا راگ الاپنے کے سوا کوئی بہانہ نہ تھا۔ نک ہاروے نے تسلیم کیا کہ سیاسی مفاہمت میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ جیسا کہ امریکا اور برطانیہ اس حوالے سے کچھ نہ کرسکے تواب یہ افغانوں پر منحصر ہے کہ وہ خطے کے دوسرے ممالک کی مدد سے اپنے ملک کیلئے کچھ کریں۔ میری پریزنٹیشن میں سیاسی مفاہمت کی پیش رفت کو مرکزی حیثیت حاصل تھی کیونکہ یہ افغانستان میں ہونیوالی سیاسی، سیکورٹی اور معاشی تبدیلی کی بنیاد کیلئے ناگزیر ہے۔ میں نے دلیل پیش کی کوئی نہیں چاہتا کہ 2014ایک اور1989 بن جائے تاہم اس تناظر سے بچنے کیلئے مذاکراتی عمل کی بحالی لازمی ہے جوکہ پس پُشت ڈال دی گئی ہے۔سیاسی حل کی ضرورت کے حوالے سے عمومی طور پر اتفاق رائے پایا گیا۔ لیکن سامعین میں سے کسی نے نشاندہی کی کہ کسی بھی افغان مقرر نے عملی خیالات پیش نہیں کیے کہ آگے کس طرح بڑھا جائے۔ میں واحد مقرر تھی جس نے تعطل کا شکار دوحہ امن عمل کا ذکر کیا، جب میں نے پوچھا کہ کیا یہ امن عمل بحال کیا جاسکتا ہے تو اس کا جواب دینے کیلئے کوئی آگے نہ بڑھا۔ فوجی حکمت عملی کے محددو ہونے کے عنوان کی گونج تقریب میں سنائی گئی۔ نک ہاروے نے کہا کہ 13سالہ عسکری سعی افغانستان میں امن نہ لاسکی جس کی عکاسی بیرون افواج کے مطلوبہ اہداف حاصل نہ کیے جانے سے ہوتی ہے۔ قدامت پسند رکن پارلیمنٹ ڈیوڈ ہالوے نے سخت گیر موقف اختیار کرتے ہوئے کہا’ کہ مغربی ممالک کا طریقِِ کاروبار افواج بھیجنا ہے، جب ہتھوڑا ایک ہی آلہ ہوتو آپ ٹھونکنے کیلئے کیلیں ڈھونڈتے ہیں۔‘ انہوں نے بیرونی ممالک کی جانب سے طاقت کے زور پر ایک مضبوط مرکزی حکومت بنانے کی بے ثمری سے آگاہ کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے یاددلایا کہ انکے دورہ کابل کے دوران کس طرح برطانوی مشن نے بریفنگ دی جوکہ عام طور پر حقیقت سے متضاد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ’ ایک مرتبہ ایک سفیر نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ کو بولنے سے ترقی نہیں ملتی‘۔ایک کلیدی سوال یہ ہے کہ آیا نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلاء کے بعد افغان نیشنل آرمی ملک کی سیکورٹی کا نظم و نسق سنبھال لے گی۔ ملے جلے نقطہ ہائے نظر پیش کیے گئے۔ ایک افغان مقرر نے کہا کہ تعداد زیادہ تھی لیکن معیار اچھا نہیں تھا اور حوصلے کی بھی کمی تھی۔ نک ہاروے نے یاددلایا کہ نجیب اللہ کی حکومت اسی وقت گری جب سوویت یونین تباہ ہورہا تھا اور وہ افغان آرمی کی مالی معاونت سے قاصر تھا۔ سامعین کی جانب سے اس پر شبہے کا اظہار کیا گیا۔ ایک سابق برطانوی افسر نے نشاندہی کی جس طرح عراق میں ہوا اسی طرح جب افغانستان سے بیرونی افواج کا انخلاء ہوجائیگا تو اس پر سے عالمی برادری کی توجہ اور افغان آرمی کیلئے فنڈنگ بھی فوری طور پر کم ہوجائیگی۔ جب افغان سفیر کو کہنا پڑا کہ افغان آرمی کیلئے دی جانے والی فنڈنگ امریکی بجٹ کا بہت چھوٹا حصہ ہے، اس ردعمل میں سامعین کی جانب سے واشنگٹن کی طاقت کے تسلسل پر شکوک کا اظہار کیا گیا۔ جس پر نک ہاروے کی جانب سے یہ جواب دیا گیا کہ ’ہم مالی معاونت کے وعدوں پر قائم رہیں گے تاہم یہ سلسلہ غیر معینہ مدت تک جاری نہیں رہ سکتا۔‘ ایک رکن پارلیمنٹ نے رائے پیش کی کہ کیا یہ بات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ بین الاقوامی برادری عراق سے زیادہ افغانستان میں دلچسپی لے گی؟ کنگز کالج میں اعزازی لیکچرار اور ایک اسکالر اینٹونیو گیوستوزی کی جانب سے افغان آرمی کے حوالے سے ایک دلچسپ نقطہ نظر پیش کیا گیا، انہوں نے کہاکہ افغان نیشنل آرمی کی صلاحیت 2014 کے بعد پتہ چلے گی کہ وہ کس طرح اندرونی صورتحال سے نبردآزماہوتی ہے، اس کے ملک پر دوررس نتائج مرتب ہونگے۔ اس کی نرمی طالبان کے موقف کا بھی تعین کریگی۔ طالبان کی تحریک کے اندرونی محرکات کے حوالے سے گیوستوزی کی تحریر معنی خیز ہے۔ سامعین کی جانب سے ان سے سوال کیا گیا طالبان کی نمائندگی کون کرتا ہے؟ جس کے جواب میں انہوں سوال کیا کہ طالبان ایک ہیں یا کئی؟ انکا جواب تھا کہ بغاوت کی تحریکیں خود کو لیننسٹ جماعتوں کی طرح منظم نہیں کرتیں اور اسکے مخالف وہ معاشروں کی سیّالیت کا بندوبست کرتی ہے۔ اس لیے طالبان اپنے معاشرے کی طرح ایک بھی ہیں اور کئی بھی۔ انہوں نے پھر وضاحت کی کہ طالبان کے سیاسی اور عسکری دھڑے کے مابین پہلے پائی جانے والی چپقلش نے ایک قسم کی مفاہمت کو جنم دیا ہے کہ سیاسی حل ڈھونڈنے سے تحریک کمزور نہیں ہوگی۔عمومی طور پر تمام گفتگو دلچسپ اور معلومات پر مبنی تھی لیکن اگر افغان مقررین آنے والے مہنیوں کے حوالے سے سب سے زیادہ نتیجہ خیز سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتے تو یہ اور بھی بامعنی ہوسکتی تھی۔ مفاہمتی عمل کیسے آگے بڑھے گا اور مذاکراتی حل کے کلیدی عناصر کیا ہوسکتے ہیں۔ یہ مایوس کن بات تھی کہ بحث کے دوران 2014 کے بعد افغانستان میں سیاسی استحکام جیسے اہم ترین جز پر سنجیدگی سے روشنی نہیں ڈالی گئی۔ تبدیلی کے عسکری پہلو کو زیادہ توجہ نصیب ہوئی، اس سے لازمی طور پر 2014کے بعد کے حالات پر جزوی جائزہ لینے کی راہ ہموار ہوئی۔ تقریب کے اختتامی الفاظ برطانوی پارلیمنٹ کی امور خارجہ کی کمیٹی کے سابق چیئرمین نے ادا کیے انہوں نے کئی گھنٹوں کی گفتگو کے بعد کہا کہ ہم تبدیلی کی بات کررہے ہیں لیکن کیسی تبدیلی؟
تازہ ترین