• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2001ء میں گیارہ ستمبر اور اس کے فوراً بعد دنیا نے ناقابل فراموش مناظر دیکھے۔ سب نے اپنی اپنی مرضی سے ایک منظر چن لیا اور ہندی کی چندی کرنے لگے۔ مجھے ان مناظر میں ایک خاص بات قابل غور لگی۔ روڈی جولیانی نیویارک کے میئر تھے۔ ٹوئن ٹاورز کے بارے میں میڈیا کو لمحہ بہ لمحہ اطلاعات پہنچانے کا ذمہ جولیانی نے اٹھایا۔ نیویارک کے گورنر ہر موقع پر موجود ہونے کے باوجود پس منظر میں کھڑے رہتے تھے۔ انتظامی سطح پر آگ بجھانے اور متاثرین کی مدد کرنے کے معاملات نیویارک شہر کی مقامی حکومت سے تعلق رکھتے تھے۔ دنیا کو جھنجھوڑ دینے والا یہ واقعہ عالمی میڈیا پہ رونمائی کا بہترین موقع تھا لیکن گورنر نے کہنی مار کر جولیانی کو پیچھے دھکیلنے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ کچھ روز بعد امریکی صدر نے گرائونڈ زیرو کا دورہ کیا تو ان کے خطاب کے دوران جولیانی ان کے پہلو میں کھڑے تھے۔ یہ جمہوریت کی مختلف سطحوں کے باہمی ارتباط کا بہترین نمونہ تھا۔ ہمارے ہاں بھی مقامی حکومتوں کی ایک روایت موجود ہے اور ہم نے مقامی حکومت کے تصور کا بھی وہی حال کر رکھا ہے جیسے ہم نے ملکی سطح پر جمہوریت کا مردہ خراب کیا ہے۔
گزشتہ دنوں مجھے آئندہ بلدیاتی انتخابات کے تناظر میں پنجاب کے مختلف اضلاع میں جانے کا موقع ملا۔ مبشر بخاری اور اظہر خاں ہم رکاب تھے۔ ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی طرف سے وقائع نگار صحافیوں کے لیے تربیت کا مرحلہ درپیش تھا۔ قدرتی طور پر صحافیوں سے تبادلہ خیال کے علاوہ بلدیاتی امیدواروں سے ربط ضبط پیدا ہوا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ہر ضلع میں مختلف عمر ، معاش اور سیاسی پس منظر سے تعلق رکھنے والے ووٹروں کے خیالات جاننے کا موقع ملا۔ یہ تحریر پنجاب کے مختلف شہروں اور قصبوں میں بستے ان خوبصورت انسانوں میں گزرے چند پْرلطف دنوں کی دین ہے جنہیں ریاستی غفلت اور معاشرتی پسماندگی نے انہونی اور ہونی کی اس پگڈنڈی پہ چھوڑ دیا ہے جہاں سے انسانی ترقی کی شاہراہ بقول صوفی تبسم ’نظر تو آتی ہے، نزدیک نہیں آتی۔ بلدیاتی انتخابات کے ضمن میں پہلا تاثر تو یہ ہے کہ شہریوں اور سیاسی حلقوں میں ابھی تک یہ شعور عام نہیں ہو سکا کہ بلدیاتی حکومت جمہوری نظام کا لازمی حصہ ہے۔ ہمارے ہاں جمہوریت کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں تک محدود سمجھا جاتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات کو اس ذہن میں لطیفہ غیبی کی حیثیت حاصل ہے۔ بلدیاتی انتخابات کی تاریخ بھی کچھ ایسی خوشگوار نہیں ہے۔ ایوب نے قومی سطح پر جمہوریت کا بستر گول کیا تو بنیادی جمہوریتوں کو گویا قومی سیاست کے متبادل کے طور پر پیش کیا۔ مقصد اپنے لیے محدود حلقہ انتخاب پیدا کرنا تھا۔ ضیاالحق نے بھی بلدیاتی انتخابات کا ڈول ڈالا ۔ مقصد سیاسی جماعتوں سے جان چھڑانے کے لیے متبادل سیاسی قیادت کی آبیاری کرنا تھا۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں بلدیاتی نظام سے سامنے آنے والے بہت سے چہرے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں جا پہنچے۔ قومی ترجیحات اور سیاسی نقطہ نظر کی بجائے ذاتی اور گروہی رسوخ کی بنا پر اسمبلیوں میں پہنچنے والے یہ نئے چہرے سیاست میں بدعنوانی اور پیسے بنانے کی ثقافت لائے۔ اس کثافت کی بنیاد رکھنے والوں کو گویا جمہوریت کے خلاف گالی گفتار کا جواز مل گیا۔ جن طاقتوں نے یہ جڑی بوٹیاں بوئی تھیں، اس کی فصل لوٹنے کا بھی موقع انہی کے ہاتھ آیا۔ پرویز مشرف نے چہرہ نمائی کی تو مقامی حکومتوں کا اشقلہ پھر چھوڑا گیا۔ جمہوری قیادت میں بلدیاتی سیاست کے لیے شکوک و شبہات اور خدشات گہرے ہو گئے۔
جمہوریت تربیلا کی جھیل نہیں ہے کہ سرنگ 3 بند کر کے سرنگ 4 کھول دی جائے۔ جمہوریت سمپورن راگنی ہے۔ اس میں سات سُر لگانا پڑتے ہیں۔ اس کی سرگم میں خیانت کی جائے تو جمہوریت کی اپسرا اپنے بھید بھائو نہیں دکھاتی۔ وفاقی حکومت کا کام تمام وفاقی اکائیوں کے باہم ارتباط کو یقینی بنانا اور بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات کو منضبط کرنا ہے۔ صوبائی حکومتوں کا کام عوام کے معیار زندگی کے لیے قانون سازی کرنا اور مؤثر پالیسیاں مرتب کرنا ہے جبکہ مقامی حکومتوں کا کام اپنے شہر یا قصبے میں قریبی اور وسیع تر رابطوں کی مدد سے تمدنی زندگی کو مربوط کرنا ہے۔ پنجاب کی صوبائی حکومت غیر جماعتی بنیادوں پہ بلدیاتی انتخابات کرانے میں دلچسپی رکھتی ہے۔ مقامی حکومتوں کے اس قانون کو عدالت میں چیلنج کیا جا چکا ہے۔ سو اس معاملے کے قانونی پہلو تو اب عدلیہ ہی طے کرے گی۔ سیاسی سطح پر بحث البتہ کی جا سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بلدیاتی حکومت جمہوریت کی نرسری ہے تو یہ نرسری غیر جماعتی کیسے ہو سکتی ہے۔ غیر جماعتی سیاست کے ذریعے سامنے آنے والی قیادت جمہوری اقدار کی بالادستی سے کیسے وابستہ ہو گی۔ یہ درست ہے کہ قومی اور صوبائی انتخابات میں بھی آزاد یعنی غیر جماعتی حیثیت میں انتخاب لڑنے کی گنجائش موجود ہے لیکن اسمبلی کے اندر حکومت تو جماعتی بنیادوں پر تشکیل پاتی ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ آزاد امیدواروں کا تانگہ بھر کر مؤثر عوامی تائید رکھنے والی سیاسی جماعتوں کو کمزور کیا جائے ۔ سوال یہ ہے کہ غیر جماعتی سیاست کی ثقافت اگر مقبول سیاسی جماعتوں سے متصادم ہے تو منتخب جمہوری حکومتیں غیر جماعتی انتخابات پر اصرار کیوں کرتی ہیں۔ بات سادہ ہے ۔ہماری بڑے دھارے کی سیاسی جماعتیں سیاسی نصب العین کی بنا پر تشکیل نہیں پاتیں۔ نمائش کی کھڑکی پر محترم لیڈر کا چہرہ سجا دیا جاتا ہے اور روایتی رسوخ نیز پیوستہ مفادات سے میلہ سجایا جاتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں حلقوں او رامیدواروں کی تعداد اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ مقبول سیاسی جماعتوں کے لیے مقامی سطح پر اپنے امیدوار کو مقامی حریفوں سے بچانا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ جو گلی محلے کی سطح پہ خان ، چوہدری ، ملک اور معززین عرف ادنیٰ کارکن جمع کیے جاتے ہیں ، خدشہ ہوتا ہے کہ انہیں ٹکٹ نہ دیا گیا تو وہ چھلانگ لگا کر دوسری سیاسی جماعت میں چلے جائیں گے۔ اس جھنجھٹ سے بچنے کے لیے غیر جماعتی انتخابات کا جال بنا جاتا ہے۔ مقامی مرغے آپس میں چونچیں لڑالیں ، جیتنے والے کے گلے میں مقتدر سیاسی جماعت اپنے نام کی تختی لٹکا دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر پانچ مہینے قبل بھاری اکثریت سے منتخب ہونے والی سیاسی جماعتیں حکومت میں ہوتے ہوئے بھی بلدیاتی سطح پر مقامی رسوخ پر اپنا اختیار واضح نہیں کر سکتیں تو کسی مشکل موسم میں قاف اور پیٹریاٹ کی تشکیل کو کیسے روکا جا سکتا ہے ۔پنجاب بھر میں یہ شکایت عام ہے کہ پینے کے پانی اور نکاسیٔ آب کے نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکے ہیں چنانچہ شہریوں کو پینے کے لیے آلودہ پانی مل رہا ہے۔ بعض مقامات پر سرکاری نلکوں میں پانی آنا سرے سے بند ہو چکا ہے۔ شہری ٹینکروں کے ذریعے پانی حاصل کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ غریب آدمی اس طرح صاف پانی تک رسائی کے وسائل نہیں رکھتا۔ چنانچہ ہیپا ٹائٹس کے علاوہ پیٹ کی بیماریاں بھی عام ہیں۔ لاکھوں کی آبادی پر مشتمل شہروں میں کْچھ بنیادی شہری ضروریات کا سرے سے غائب ہونا حیران کْن ہے۔ سڑکوں پر کہیں فٹ پاتھ نظر نہیں آتے۔ گردوغبار میں اٹی، کیچڑ میں سنی تارکول کی شکستہ سڑک کے دونوں کناروں پر یا تو تجاوزات ہیں یا مٹی اور کوڑا کرکٹ کے انبار۔ تعلیم یا علاج معالجے کی سہولتیں تو خیر ناپید ہیں، سڑکوں کے کنارے درخت بھی نظر نہیں آتے۔ کوئی تیس برس پہلے شام کی اذان کے ساتھ ہی سینکڑوں پرندے قطار اندر قطار اپنے گھونسلوں کی طرف اْڑتے دکھائی دیتے تھے۔ اب سورج غروب ہونے پر پرندے نظر نہیں آتے۔ پرندوں کی صرف تعداد ہی کم نہیں ہوئی، اْن کے تنوع میں بھی کمی آئی ہے۔ ہمارے بچے پرندوں کے نام پر صرف چڑیا اور کوے سے آشنا ہیں۔ فاختہ، طوطا، لالی، ہْد ہْد اور تیتر اْن کی کتابوں میں ہوں تو ہوں، اْن کے مشاہدے کا حصہ نہیں۔ فصلی بٹیرے بھی فضا میں نہیں، اقتدار کی غلام گردشوں میں ملتے ہیں۔ عالمتاب تشنہ یاد آ گئے ۔
یہ اک اشارہ ہے آفات ناگہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا
تازہ ترین